Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 4
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ
وَالَّذِينَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان رکھتے ہیں بِمَا : اس پر جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا إِلَيْکَ : آپ کی طرف وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِکَ : آپ سے پہلے وَبِالْآخِرَةِ : اور آخرت پر هُمْ يُوقِنُونَ : وہ یقین رکھتے ہیں
اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ پر نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں
تصوف چھپا کر رکھنے کی چیز نہیں : اس میں تصوف کے لئے بھی ارشاد ملتا ہے کہ جس قدر بھی چیزیں اللہ کی طرف سے عطا ہوئی ہیں ان سب میں تصوف قیمتی دولت ہے اسے چھپا کر نہ رکھے بلکہ اللہ کی مخلوق تک پہنچائے ایک مسلمان جس طرح حصول رزق کے لئے حلال و حرام کا مکلف ہے اسی طرح خرچ کرنے کے معاملے میں بھی اس کی کوئی پائی مرضیات باری کے خلاف خرچ نہ ہو ۔ اور یہی وہ سنہری اصول ہے جسے سوائے اسلام کے کسی نے بیان نہیں کیا ، حالانکہ یہ سب سے موثر ہے کہ جب اخراجات محدود ومقرر ہوں گے تو بیحد آمدنی کی خواہش بھی نہ ابھرے گی اور یہ سب اس وقت ہوگا جب انسان کلی طور پر اطاعت رسول ﷺ اختیار کرے۔ والذین یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک ، جو آپ ﷺ پر نازل ہوا اس سب کو صدق دل سے مانیں اور جو کلام الٰہی آپ ﷺ سے قبل تمام انبیاء (علیہم السلام) پر نازل ہوا اس سب کو اللہ کا کلام مانتا ہو اگرچہ عمل صرف اس آخری کلام پر ہوگا ، مگر ایمان تمام ارشادات باری پر ضروری ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اللہ کا کلام اس قدر عظیم المرتبت ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں کوئی بات اللہ کی طرف سے نازل ہوئی اس کا منکر کافر ہوگا ، خواہ وہ بات بھی اس تک نہ پہنچی ہو ، جیسے کوئی کہہ دے کہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر نازل ہونے والے صحائف کو نہیں مانتا اگرچہ اسے علم ہی نہ ہو کہ ان میں کیا بات ارشاد ہوئی تھی ، وہ مومن نہ رہے گا۔ ختم نبوت کی دلیل : اگر حضور اکرم ﷺ کے بعد کسی نئی نبوت یا نزول کلام کا امکان ہوتا تو پہلے نازل ہونے والے کلام کی نسبت اس کے بارے بہت کچھ ارشاد ہوتا کہ لوگوں کو وہ حالات پیش آنے والے تھے اور ان کا منکر بھی کفر کی زد سے بچ نہ سکتا تھا۔ مگر یہاں صرف من قبلک پر اکتفا اس بات پر بہت بڑی دلیل ہے کہ حضور اکرم ﷺ پر نبوت اور نزل کلام تمام ہوئے اگر عیسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائیں گے تو مومن ان پر پہلے سے ایمان رکھتے ہیں مگر کوئی نیا نبی اور نیا کلام آنے کا کوئی امکان نہیں جن لوگوں نے ایسے دعا دی کہتے ہیں انہوں نے محض ہوا میں قلعے بنانے کی ناکام کوشش کی ہے خود گمراہ ہو کر دوسروں کی گمراہی کا باعث بنے ہیں۔ وبالاخرۃ ھم یوقنون ، اور آخرت کے ساتھ پختہ یقین رکھتے ہیں اگرچہ آخرت بھی ایمان بالغیب ہی ایک رکن ہے مگر ایسا عظیم رکن ہے کہ جس پر ساری انسانی زندگی کی تعمیر کی بنیاد ہے۔ اس پر بہت پختہ یقین کی ضرورت ہے ایک ایسا یقین جو قدم کو اٹھنے سے پہلے تھام لے اور یہ سوچنے پر مجبور کردے کہ اس کا اخروی نتیجہ کیا ہوگا ؟ اب اسے کیا ہوگیا ؟ کا جواب بھی اور پھر کیا کروں کا جواب بھی محمد رسول اللہ ﷺ سے مل سکے گا اور اس کی زندگی سنت کے مطابق ڈھلتی چلی جائے گی۔ یہاں یومنون کی جگہ یوقنون اسی بات کو واضح کررہا ہے اور دور حاضر کی بداعمالی کی بنیادی سبب اسی یقین کی کمی ہے ، یقین کامل نام ہے دل کی تصدیق کا ، دل کے مان جانے اور دل کے اعتبار کرنے کا لہٰذا جن لوگوں کو اوصاف بالا نصیب ہیں۔
Top