Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 4
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ
وَالَّذِينَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان رکھتے ہیں بِمَا : اس پر جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا إِلَيْکَ : آپ کی طرف وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِکَ : آپ سے پہلے وَبِالْآخِرَةِ : اور آخرت پر هُمْ يُوقِنُونَ : وہ یقین رکھتے ہیں
جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں
[ وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو ] [ یُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں ] [ بِمَا : اس پر جو ] [ اُنْزِلَ : اتارا گیا ] [ اِلَـیْکَ : آپ ﷺ کی طرف ] [ وَمَا : اور جو ] [ اُنْزِلَ : اتارا گیا ] [ مِنْ قَبْلِکَ : آپ ﷺ سے پہلے ] [ وَبِالْاٰخِرَۃِ : اور آخری پر ] [ ھُمْ : وہ لوگ ] [ یُوْقِنُوْنَ : یقین رکھتے ہیں ] ن ز ل نَزَلَ یَنْزُلُ (ن) نُزُوْلاً : اُترنا۔ { وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ } (الحدید :16) ” اور جو اترا حق میں سے “۔ { وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ } (الحدید :4) ” اور جو اترتا ہے آسمانوں سے۔ “ مَنْزِلٌج مَنَازِلُ (اسم الظرف) : اترنے کی جگہ ‘ ٹھہرنے کی جگہ۔ { ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَائً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ } (یونس :5) ” وہ ہے جس نے بنایا سورج کو روشن اور چاند کو نور اور اس کے لیے طے کردیں منزلیں۔ “ نُزُلٌ (اسم ذات) : وہ چیز جو مہمان کے سواری سے اترتے ہی یعنی آتے ہی اصل دعوت سے پہلے پیش کی جائے۔ ابتدائی مہمان نوازی۔ { اِنَّا اَعْتَدْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرین نُزُلًا } (الکہف :102) ” یقینا ہم نے تیار کیا ہے جہنم کو کافروں کے لیے ابتدائی مہمان نوازی کے طور پر۔ “ اَنْزَلَ یُنْزِلُ (افعال) اَنْزَالًا : اتارنا۔ { اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْکِتٰبِ } (البقرۃ :172) ” بیشک وہ لوگ جو چھپاتے ہیں اس کو جو اتارا اللہ نے الکتاب میں سے۔ “ مُنْزِلٌ(اسم الفاعل): اتارنے والا۔ { اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْ اُوفِی الْکَیْلَ وَاَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ } (یوسف :59) ” کیا تم لوگ دیکھتے نہیں کہ میں پورا ناپتا ہوں پیمانے کو اور میں سب سے بہتر ہوں اتارنے والوں میں یعنی بہترین مہمان نواز ہوں۔ “ مُنْزَلٌ (اسم المفعول) : اتارا ہوا۔{ اَنْ یُّمِدَّکُمْ رَبُّـکُمْ بِثَلٰثَۃِ اٰلَافٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُنْزِلِیْنَ ۔ } (آل عمران) ” کہ تم لوگوں کی مدد کرے تمہارا رب تین ہزار فرشتوں سے جو اتارے گئے۔ “ تَنَزَّلَ یَتَنَزَّلُ (تفعیل) تَنْزِیْلًا : کسی چیز کو بتدریج اتارنا۔ { ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ } (البقرۃ :176) ” یہ اس لیے کہ اللہ نے بتدریج اتارا الکتاب کو حق کے ساتھ۔ “ { وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآئٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ } (بنی اسرائیل :82) ” اور ہم بتدریج اتارتے ہیں قرآن میں سے جو شفاء ہے اور رحمت ہے مؤمنوں کے لیے۔ “ مُنَزِّلٌ (اسم الفاعل) : بتدریج اتارنے والا۔ { قَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مُنَزِّلُھَا عَلَیْکُمْ } (المائدۃ :115) ” کہا اللہ نے کہ میں بتدریج اتارنے والا ہوں اس کو تم لوگوں پر۔ “ مُنَزَّلٌ (اسم المفعول) : بتدریج اتارا ہوا۔ { وَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّـہٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ } (الانعام :114) ” اور جن لوگوں کو ہم نے دی الکتاب ‘ وہ لوگ جانتے ہیں کہ وہ یعنی قرآن بتدریج اتارا ہوا ہے آپ ﷺ کے رب کی جانب سے حق کے ساتھ “۔ تَنَزَّلَ یَتَنَزَّلُ (تفعل) تَنَزُّلًا : ٹھہر ٹھہر کر اترنا ‘ اترتے رہنا۔ { اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ } (حٰمٓ السجدۃ :30) ” بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ لوگ ڈٹے رہے یعنی اپنے قول پر ‘ تو اترتے ہیں ان لوگوں پر فرشتے۔ “ ء خ ر x x : ثلاثی مجرد سے فعل استعمال نہیں ہوتا۔ اَخَّرَ یُـاَخِّرُ (تفعیل) تَاْخِیْرًا : پیچھے کرنا۔ { یُنَـبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ } (القیامۃ :13) ” جتلا دیا جائے گا اس دن انسان کو جو اس نے آگے کیا اور جو اس نے پیچھے کمایا۔ “ { وَلَنْ یُّـؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِذَا جَآئَ اَجَلُھَا } (المنفقون :11) ” اور اللہ ہرگز پیچھے نہیں کرے گا یعنی ہرگز مہلت نہیں دے گا کسی نفس کو جب آجائے گی اس کی اجل۔ “ تَاَخَّرَ یَتَاَخَّرُ (تفعل) تَاَخُّرًا : پیچھے رہنا۔ { نَذِیْرًا لِّلْبَشَرِ لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّـتَقَدَّمَ اَوْ یَتَاَخَّرَ } (المدثر :37) ” وارننگ ہے ہر شخص کے لیے جو چاہے تم میں سے کہ وہ آگے رہے یا پیچھے رہے۔ “ اِسْتَئْخَرَ یَسْتَئْخِرُ (استفعال) اِسْتِئْخَارًا : پیچھے ہونا۔ { فَاِذَا جَآئَ اَجَلُھُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ } (الاعراف :34) ” تو جب آجائے گی ان لوگوں کی اجل نہ تو وہ لوگ پیچھے ہوں گے ایک گھڑی اور نہ آگے ہوں گے۔ “ آخِرٌ (فَاعِلٌکا وزن) : آخری۔ { وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّـقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ۔ } (البقرۃ) ” اور لوگوں میں سے وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخری دن پر حالانکہ وہ لوگ مومن نہیں ہیں۔ “ آخَرُ (اَفْعَلُکا وزن) : دوسرا۔ { اَلَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ } (الحجر :96) ” وہ لوگ جو بناتے ہیں اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ۔ “ ی ق ن (س) یَقَنًا : روشن و ثابت ہونا۔ قرآن مجید میں ثلاثی مجرد سے فعل استعمال نہیں ہوا۔ یَقِیْنٌ (فَعِیْلٌ کا وزن) : کسی چیز کا ثبوت کے ساتھ ہمیشہ کے لیے سمجھ میں آجانا ‘ یقین آنا۔ { وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّّیْنِ حَتّٰی اَتٰٹنَا الْیَقِیْنُ } (المدثر :47) ” اور ہم جھٹلایا کرتے تھے بدلے کے دن کو یہاں تک کہ آیا ہم کو یقین۔ “ اَیْقَنَ یُوْقِنُ (افعال) اِیْقَانًا : یقین کرنا۔ { قَدْ بَیَّنَا الْاٰیٰتِ لَقِوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ } (البقرۃ :118) ” ہم واضح کرچکے ہیں نشانیوں کو ایسی قوم کے لیے جو یقین کرتے ہیں۔ “ مُوْقِنٌ (اسم الفاعل) : یقین کرنے والا۔ { وَکَذٰلِکَ نُرِیْ اِبْرٰھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ ۔ } (الانعام) ” اور اس طرح ہم دکھاتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) کو زمین اور آسمانوں کی بادشاہت اور اس لیے کہ وہ ہوجائے یقین کرنے والوں میں سے۔ “ اِسْتَیْقَنَ یَسْتَیْقِنُ (استفعال) اِسْتِیْقَانًا : یقین حاصل کرنا۔ { وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَھُمْ اِلاَّ فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوتُوا الْکِتٰبَ } (المدثر :31) ” اور ہم نے نہیں بنایا ان کی گنتی کو مگر آزمائش ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا ‘ تاکہ یقین حاصل کریں وہ لوگ جنہیں دی گئی الکتاب۔ “ مُسْتَیْقِنٌ (اسم الفاعل) : یقین حاصل کرنے والا۔ { قُلْتُمْ مَّا نَدْرِیْ مَا السَّاعَۃُ اِنْ نَّظُنُّ اِلاَّ ظَنًّا وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ } (الجاثیۃ :32) ” تم لوگوں نے کہا ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہے ‘ ہم گمان نہیں کرتے مگر ایک گمان یعنی کچھ گمان سا ہوتا ہے اور ہم یقین حاصل کرنے والے نہیں ہیں۔ “ ترکیب : یہ پوری آیت بھی آیت 2 کے لفظ اَلْمُتَّقِیْنَ کا بدل ہے۔ وَبِالْاٰخِرَۃِ صفت ہے۔ اس کا موصوف محذوف ہے۔ اَلْاٰخِرَۃِ مؤنث ہے اس لیے اس کا موصوف مذکر نہیں ہوسکتا لازماً مؤنث ہوگا جیسے وَبِالسَّاعَۃِ الْاٰخِرَۃِ ۔ نوٹ (1): انزال اور تنزیل ‘ دونوں کے معنی ہیں اتارنا۔ جبکہ ان میں فرق یہ ہے کہ انزال میں زیادہ تر کسی چیز کو ایک دفعہ اتارنے کا مفہوم ہوتا ہے۔ اور تنزیل میں کسی چیز کو رفتہ رفتہ اتارنے کے معنی ہوتے ہیں۔ نزول قرآن کے لیے انزال اور تنزیل ‘ دونوں کے مختلف صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ اس کو سمجھنے میں ایک حدیث سے مدد ملتی ہے جس میں ہے کہ قرآن پاک ایک ہی دفعہ آسمان دنیا پر نازل ہوا اور پھر رفتہ رفتہ نازل ہوتا رہا۔ نوٹ (2): اس آیت میں { وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ } کے الفاظ سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید سے پہلے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان لانا ہمارے ایمان کا لازمی جز ہے۔ لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ صحف ابراہیم کا آج دنیا میں وجود نہیں ہے۔ توراۃ ‘ زبور ‘ انجیل سریانی اور عبرانی زبانوں میں نازل ہوئی تھیں۔ ان زبانوں میں ان کے نسخے اب دستیاب نہیں ہیں۔ مختلف زبانوں میں ان کے ترجمے موجود ہیں ‘ جن کے متعلق خود ان کتابوں کے علماء تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں کلام اللہ کے ساتھ انسانی کلام بھی شامل ہے۔ ان حالات میں آیت زیر مطالعہ کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اتنا ایمان کافی ہے کہ قرآن مجید سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے کتابیں نازل کی تھیں جن کا اب وجود نہیں ہے۔ لیکن آج کے دور میں قرآن مجید کے علاوہ کسی دوسری کتاب کو کلام اللہ تسلیم کرنا درست نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہاجا سکتا ہے کہ ان کتابوں کے کچھ اجزاء کلام اللہ کی ترجمانی پر مشتمل ہوسکتے ہیں۔ نوٹ (3):{ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ } کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ ” آخری “ پر ایمان لانا بھی ہمارے ایمان کا لازمی جز ہے۔ جیسا کہ اس آیت کی ترکیب میں واضح کیا جاسکتا ہے کہ اَلْاٰخِرَۃ چونکہ مؤنث صفت ہے اس لیے اس سے پہلے کسی مذکر لفظ کو محذوف ماننا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ صفت چاروں پہلوئوں سے موصوف کے مطابق ہوتی ہے۔ اس لیے اَلْاٰخِرَۃ سے پہلے کسی بھی مؤنث لفظ کو محذوف ماننے کی گنجائش قواعد کی رو سے نکلتی ہے۔ اس کے علاوہ قواعد ہی کی رو سے اس سے پہلے کسی غیر عاقل کی جمع مکسر کو بھی محذوف ماننے کی گنجائش ہے۔ بشرطیکہ سیاق وسباق بھی اس کی اجازت دیتے ہوں۔ اس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے مرزائی لوگوں نے اَلْاٰخِرَۃسے پہلے لفظ ” وحی “ کو محذوف مانا ہے۔ اس بنیاد پر وہ استدلال کرتے ہیں کہ قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں کی طرح ‘ قرآن کے بعد نازل ہونے والی ” آخری وحی “ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ اردو زبان میں وحی کا لفظ مؤنث ہے لیکن عربی میں مذکر ہے۔ مرزائی اہل علم اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں ان کی اس غلطی کو لاعلمی پر محمول کرنا ممکن نہیں ہے۔
Top