Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 4
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ
وَالَّذِينَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان رکھتے ہیں بِمَا : اس پر جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا إِلَيْکَ : آپ کی طرف وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِکَ : آپ سے پہلے وَبِالْآخِرَةِ : اور آخرت پر هُمْ يُوقِنُونَ : وہ یقین رکھتے ہیں
اور جو کتاب (اے محمد) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں
(تفسیر) اس قرآن سے مراد ہے (آیت)” وما انزل من قبلک “ اس سے مراد تورات ، انجیل اور بقیہ وہ تمام کتب جو انبیاء کرام (علیہم السلام) پر نازل کی گئیں ۔ ابوجعفر اور ابن کثیر اور قالون اور اہل بصرہ اور یعقوب ہر اس مد کو چھوڑ دیتے ہیں اور جو دو کلموں کے درمیان واقع ہو اور باقی حضرات مد دیتے ہیں اور یہ آیت کریمہ ان مؤمنین کرام سے متعلق ہے جو اہل کتاب میں سے ایمان لائے ۔ ” وبالاخرۃ “ ای بالدار الاخرۃ (یعنی جو آخرت پر ایمان لائے) دنیا کو دنیا کا نام اس لیے دیا گیا کہ وہ بنسبت آخرت کے قریب ہے اور آخرت کو آخرت اس لیے کہا گیا کہ وہ متاخر اور دنیا کے بعد ہونے والی ہے ۔ ” ہم یوقنون “ وہ یقین رکھتے ہیں کہ بیشک وہ ہونے والی ہے ، یوقنون ایقان سے ہے اس کا معنی علم ہے اور کہا گیا ہے کہ ایقان اور یقین اس علم کا نام ہے جو دلیل سے حاصل شدہ ہو ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو مؤقن نہیں کہا جاتا اور اللہ تعالیٰ کے علم کو یقین نہیں کہا جاتا کیونکہ علم الہی دلیل سے ماخوذ نہیں۔
Top