Dure-Mansoor - Al-Baqara : 4
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ
وَالَّذِينَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان رکھتے ہیں بِمَا : اس پر جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا إِلَيْکَ : آپ کی طرف وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِکَ : آپ سے پہلے وَبِالْآخِرَةِ : اور آخرت پر هُمْ يُوقِنُونَ : وہ یقین رکھتے ہیں
اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس پر اتارا گیا آپ کی طرف اور جو اتارا گیا آپ سے پہلے اور آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں
(1) امام ابن اسحاق، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک “ سے مراد ہے کہ جو چیز آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں وہ لوگ اس چیز کی تصدیق کرتے ہیں۔ اور اس چیز کی بھی تصدیق کرتے ہیں جو آپ سے پہلے رسول اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور ان کے رب کی طرف سے جو کچھ آیا ہے اس کا انکار نہیں کرتے۔ اور لفظ آیت ” وبالاخرۃ ہم یوقنون “ کہ وہ لوگ یقین رکھتے ہیں۔ دوبارہ اٹھنے پر جنت پر، دوزخ پر، حساب پر اور میزان پر یعنی یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو گمان کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے تو جو آپ سے پہلے نازل ہوا تھا۔ اس چیز کا انکار کرتے ہیں جو آپ کے رب کی طرف سے آپ کے پاس آیا۔ (2) امام عبد بن حمید نے حضرت قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” والذین یؤمنون بما انزل الیک “ سے مراد ہے وہ فرق کرنے والی کتاب جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے حق اور باطل کے درمیان فرق کردیا لفظ آیت ” وما انزل من قبل “ سے مراد ہے وہ کتابیں جو آپ سے پہلے گزر چکی ہیں۔ لفظ آیت ” اولئک علی ھدی من ربھم، واولئک ہم المفلحوں “ سے مراد ہے کہ وہ لوگ ہدایت اور فلاح کے مستحق ہوگئے حق کے ساتھ۔ سو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے حق کو ثابت کردیا اور یہ اہل ایمان کی صفت ہے پھر مشرکین کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” ان الذین کفروا سواء علیہم “ دو آیتیں۔ (3) امام عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے زوائد المسند میں حاکم اور بیہقی نے الدعوات میں ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس تھا ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول میرا ایک بھائی ہے جس کو تکلیف ہے آپ ﷺ نے فرمایا اس کو کیا تکلیف ہے ؟ اس نے عرض کیا اس کو تھوڑا سا جنون ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس کو میرے پاس لے آؤ۔ (ہم اسے لے آئے) اور آپ ﷺ کے سامنے اس کو لٹا دیا نبی اکرم ﷺ نے (ان آیتوں کے ساتھ اس پر دم فرمایا فاتحہ الکتاب، سورة بقرہ کی پہلی چار آیات، اور یہ دو آیتیں لفظ آیت ” والہکم الہ واحد “ اور آیت الکرسی اور سورة بقرہ کی آخری تین آیات اور یہ آیت آل عمران میں سے لفظ آیت ” شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو “ اور یہ آیت اعراف میں سے لفظ آیت ” ان ربکم اللہ “ اور سورة مؤمنین کے آخر میں سے یہ آیت ” فتعال اللہ الملک الحق “ اور یہ آیت سورة جن میں سے لفظ آیت ” وانہ تعالیٰ جد ربنا “ اور سورة صافات کی پہلی دس آیات اور سورة حشر کے آخر میں سے تین آیات اور لفظ آیت ” قل ھو اللہ احد “ اور معوذ تین۔ آدمی اٹھ بیٹھا گویا کہ اسے کبھی کوئی شکایت ہی نہ تھی۔ (4) ابن سنی ” عمل الیوم واللیلہ میں عبد الرحمن بن ابی لیلی کے طریق سے ایک آدمی سے روایت کیا ہے کہ جس نے اپنے باپ سے اسی طرح روایت کیا۔ شیطان سے حفاظت کا ذریعہ (5) ابن الضریس نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے یہ آیات پڑھیں سورة بقرہ کی اول چار آیات، آیۃ الکرسی اور آیۃ الکرسی کے بعد کی دو آیتیں اور سورة بقرہ کے آخر میں سے تین آیتیں۔ اس دن اس کے اور اس کے اہل کے شیطان قریب نہیں آئے گا۔ اور کوئی چیز اس کے اہل میں اور اس کے مال میں نہیں آئے گی جس کو وہ ناپسند کرے گا اور ان دونوں کو کسی مجنون پر پڑھے گا تو وہ ٹھیک ہوجائے گا۔ (6) امام دارمی، ابن المنذر، طبرانی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے رات کو سورة بقرہ میں سے تین آیات پڑھیں تو شیطان صبح تک اس گھر میں داخل نہیں ہوگا اور وہ دس آیتیں یہ ہیں۔ شروع کی چار آیات آیہ الکرسی ا کے بعد کی دو آیتیں اور آخری تین آیات جس کی اول آیت لفظ آیت ” للہ مافی السموات “ ہے۔ (7) امام سعید بن منصور، دارمی اور بیہقی نے شعب الایمان میں مغیرہ بن سبیع ؓ (جو حضرت عبد اللہ ؓ کے اصحاب میں سے تھے) سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے سونے کے وقت سورة بقرہ میں سے دس آیات پڑھیں تو وہ قرآن کو نہیں بھولا۔ اس کو اول میں سے چار آیات اور آیہ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں۔ اور اس کے آخر کی تین آیتیں۔ (8) امام طبرانی اور بیہقی نے الشعب میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب کوئی تم میں سے مرجائے تو اس کو روکے نہ رکھو اور اس کو قبر کی طرف جلدی لے جاؤ اور (اس کو قبر میں رکھنے کے بعد) اس کے سر کی جانب فاتحۃ الکتاب اور اس کے قدموں کی جانب سورة بقرہ کی آخری آیات پڑھو اس کی قبر میں۔ (9) امام طبرانی نے الکبیر میں عبد الرحمن بن علاء بن الجلاج سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو میرے والد نے کہا اے میرے بیٹے ! جب تو مجھے میری قبر میں رکھنے لگے تو لفظ آیت ” بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ “ پڑھنا۔ پھر مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا۔ پھر میرے سر کی جانب سورة بقرہ کا شروع اور اس کا آخر پڑھنا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا فرماتے ہوئے سنا ہے۔ (10) ابن النجار نے اپنی تاریخ میں محمد بن علی المطلبی کے طریق سے خطاب بن سنان سے قیس بن ربیع سے ثابت بن صیحون نے انہوں نے محمد بن سیرین سے روایت کیا ہے کہ ہم یسیری (مقام) پر اترے اس مقام کے رہنے والے کچھ لوگ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے یہاں سے چلے جاؤ کیونکہ ہمارے پاس اس جگہ پر (جب) کوئی آتا ہے تو اس کا سامان لے لیا جاتا ہے (یہ سن کر) میرے ساتھی وہاں سے چلے گئے اور میں پیچھے (اسی جگی) رہ گیا اس حدیث کی وجہ سے جو مجھ کو حضرت ابن عمر ؓ نے بیان فرمائی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے رات میں تینتیس آیتیں پڑھیں اس رات میں اس کو سات ضرر دینے والی چیزیں ضرر نہیں دی گی۔ اور نہ چور (سامان چرا کر) لے جانے والا۔ اور اس کو اس کی جان میں اور اس کے اہل میں اور اس کی مال میں صبح تک عافیت دی جائے گی۔ جب شام کا وقت آیا تو میں نہیں سویا حتی کہ میں نے اس شیاطین کو دیکھا کہ تیس مرتبہ سے بھی زیادہ لوگ آئے۔ اپنی تلواروں کو سونتے ہوئے مگر مجھ تک نہ پہنچ سے جب صبح ہوئی میں نے وہاں سے کوچ کیا اور ان میں سے ایک بوڑھا آدمی مجھ کو ملا اس نے کہا تو انسان ہے یا جن ؟ میں نے کہا میں انسان ہوں پھر میں نے کہا تیرا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا ہم تیرے پاس ستر مرتبہ سے بھی زیادہ آئے تھے ہر دفعہ ہمارے اور آپ کے درمیان لوہے کی دیوار حائل ہوجاتی تھی۔ میں نے ان کو حدیث بیان کی اور 33 آیتیں یہ ہیں سورة بقرہ کے شروع کی چار آیتیں ” مفلحون “ تک۔ اور آیۃ الکرسی، اور اس کے بعد کی دو آیتیں ” خلدون “ تک اور سورة بقرہ کے آخر کی تین آیتیں لفظ آیت ” للہ ما فی السموت وما فی الارض “ سے آخر تک اور سورة اعراف میں سے تین آیات ” ان ربکم اللہ “ سے ” من المحسنین “ تک اور سورة بنی اسرائیل کی آخری آیات لفظ آیت ” قل ادعوا اللہ اوادعوا الرحمن “ سے آخر تک اور سورة صافات کی پہلی دس آیات ” لازب “ تک اور دو آیتیں سورة رحمن سے لفظ آیت ” یامعشر الجن والانس “ سے لے کر ” فلا تنتصران “ تک اور سورة حشر کے آخر سے لفظ آیت ” لو انزلنا ھذا القرن علی جبل “ سے آخر تک اور دو آیتیں ” قل اوحی “ سے ” وانہ تعلی جد ربنا ما اتخذ صاحبۃ “ سے لے کر ” شططا “ تک میں نے یہ حدیث شعب بن حرب کو بیان کی انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ ہم ان دو آیات کا نام آیات الحرب رکھتے ہیں۔ اور ہم کہا کرتے تھے کہ ان آیات میں ہر بیماری سے شفا ہے۔ انہوں نے مجھے پر شمار کیا جنون کو اور جذام کو اور برص وغیرہ کو۔ محمد بن علی فرماتے ہیں کہ میں نے ان آیات کو اپنے شیخ پر پڑھا جس کو فالج ہوگیا تھا یہاں تک اللہ تعالیٰ نے اس کی تکلیف کو دور فرما دیا۔ (11) امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے شروع دن سے سورة بقرہ کی دس آیات پڑھیں تو شیطان شام تک اس کے قریب نہیں آئے گا اور اگر اس نے ان کو شام کے وقت پڑھا تو شیطان صبح تک اس کے قریب نہیں آئے گا اور وہ اپنے اہل و عیال اور اپنے مال میں کسی ناپسندیدہ چیز کو نہ دیکھے گا اور اگر اس کو کسی مجنون پر پڑھے گا تو اس کو افاقہ ہوگا وہ آیات یہ ہیں۔ (سورۃ بقرہ) شروع کی چار آیات آیۃ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں اور اس کے آخر میں تین آیات۔
Top