Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 4
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ
وَالَّذِينَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان رکھتے ہیں بِمَا : اس پر جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا إِلَيْکَ : آپ کی طرف وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِکَ : آپ سے پہلے وَبِالْآخِرَةِ : اور آخرت پر هُمْ يُوقِنُونَ : وہ یقین رکھتے ہیں
وہ لوگ جو اس (کتاب) پر ایمان رکھتے ہیں جو تم پر نازل ہوئی ہے اور ان تمام (کتابوں) پر بھی جو تم سے پہلے نازل ہوچکی ہیں اور آخرت پر بھی ان کے اندر یقین ہے
ایمان بالقرآن : 8: متقیوں کی چوتھی صفت میں ارشاد ہوا ہے : یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ : یعنی اے پیغمبر اسلام ! یہ وہ لوگ ہیں جو سچائی تم پر نازل ہوئی ہے ، اس پر ایمان رکھتے ہیں اس لئے کہ قرآن کریم کے طریق استدلال کا اولین مبداء تعقل و تفکر کی دعوت ہے وہ جابجا اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کے لئے حقیقت شناسی کی راہ یہی ہے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی عقل و بصیرت سے کام لے اور جہاں تک ہو سکتا ہے اپنے وجود کے اندر اور اپنے وجود کے باہر جو کچھ بھی محسوس کرسکتا ہے اس میں تدبر و تفکر کرے ۔ آپ دیکھیں گے کہ قرآن کریم کی کوئی سورت اور سورت کا کوئی حصہ ایسا نہیں جو تدبر و تفکر کی دعوت سے خالی ہو ۔ ارشاد الٰہی ہے : وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَۙ وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ 1ؕ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ؟ (الذاریات 51 : 20 ، 21) اور یقین رکھنے والوں کے لئے زمین میں معرفت حق کی بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہارے وجود میں بھی پھر کیا تم دیکھتے نہیں ؟ پھر رسول ﷺ کی ” حیثیت “ کہ جو کچھ اس پر نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لانا ہی دراصل ایمان کہلانے کا مستحق ہے ۔ اپنے اندر بہت سی خوبیاں رکھتی ہے کیونکہ اس عبارت سے یہ مسئلہ صاف ہوجاتا ہے کہ تین چیزیں الگ الگ ہیں۔ ایک کلام نازل کرنے والا یعنی اللہ۔ دوسراوہ شخص جس پر قرآن نازل ہوا یعنی اللہ کا رسول ﷺ اور تیسرا خود قرآن کریم۔ تاکہ دنیا والوں کو یہ جملہ واضح کر دے کہ بروز ، تمثل ، حلول اور وحدت الوجود کے عوامی مفہوم سب کے سب مشرکانہ ونیم مشرکانہ عقائد ہیں جن کی جڑ اس سے مکمل طور پر کٹ جاتی ہے۔ کیونکہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ نہ کلام متمثل ہوا ہے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ کا اوتار انسانی قا لب میں آیا ہے کہ وہ حقیقت میں اللہ ہی ہو ، بلکہ رسول اللہ ﷺ ایک مستقل انسانی شخصیت رکھتا ہے اور پھر صرف یہی نہیں کہ یہ حیثیت اس خاتم الانبیاء کی ہے بلکہ ہر رسول جو بھی اللہ سے پیغام پا کر مبعوث ہوا سب کا یہی حال ہے کہ وہ نہایت ہی سچے انسان تھے نہ ان میں سے کسی نے اللہ میں حلول کیا اور نہ ہی اللہ ان میں سے کسی میں حلول کر گیا تھا۔ گویا نہ ایسا ہوا اور نہ ایسا ہو سکتا تھا۔ v: ایمان بالرسل وبا لکتب : 9: متقیوں کی پانچویں صفت : وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ 1ۚ یعنی وہ ان تمام سچائیوں پر ایمان رکھتے ہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کی سچائی سے پہلے نازل ہوچکی ہیں۔ غور کیجئے کہ قرآن کریم نے اس بات کو کس طرح صاف کردیا کہ سلسلہ ارشاد و ہدایت کوئی نئی پیدا شدہ چیز نہیں بلکہ یہ تو اس وقت سے قائم ہے جب سے انسان نے دنیا میں قدم رکھا۔ یعنی سلسلہ وحی کی عمر اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانیت کی اور ایمان کے لئے تصدیق صرف ختم المرسلین ہی کی کافی نہیں بلکہ سارے انبیاء ورسل کی تصدیق ضروری ہے اور اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ خود محمد رسول اللہ ﷺ کی ، پھر صرف یہی نہیں بلکہ تمام سابق انبیاء میں سے کسی ایک کی تکذیب بھی سب کی تکذیب کے مترادف ہے۔ یہ جملہ ارشاد فرما کر ایک طرف تو محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے مبعوث ہونے والے سارے رسولوں کی حیثیت اور ان کے پیغامات کی تصدیق کرا دی اور دوسری طرف یہ ارشاد فرمایا کہ اس وقت آنے والے رسول یعنی محمدرسول اللہ ﷺ پر نبوت کو ختم کیا جا رہا ہے لہٰذا جس طرح پہلے رسولوں اور ان پر نازل کی گئی کتابوں پر ایمان لانے والے ہی متقین تھے ایسے ہی اب محمد رسول اللہ ﷺ پر ختم نبوت ہوجانے اور آپ پر جو پیغام نازل ہوچکا ہے اس کے بعد کوئی پیغام اللہ کی طرف سے نہ آنے پر یقین رکھنا بھی متقیوں کی صفت ہے ۔ وہ انسان کبھی متقی نہیں ہو سکتا جو محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی کوئی نبی یا اللہ کی طرف سے کوئی پیغام آیا ہوا تسلیم کرے۔ کیونکہ اگر قرآن کریم کے بعد کوئی کتاب یا وحی بھی نازل ہونے والی ہوتی تو جس طرح اس آیت میں پچھلی کتابوں اور وحی پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے اسی طرح آئندہ نازل ہونے والی کتاب اور وحی پر ایمان لانے کا ذکر بھی ضرور ہوتا بلکہ اس کی ضرورت اور بھی زیادہ تھی کیونکہ تورات و انجیل اور تمام کتب سابقہ پر ایمان لانا تو پہلے ہی جاری اور معلوم تھا اگر نبی مکرم رسول معظم ﷺ کے بعد بھی سلسلہ وحی اور نبوت جاری ہوتا تو ضرورت اس کی تھی کہ اس کتاب اور اس نبی کا ذکر زیادہ اہتمام سے کیا جاتا جیسا کہ پیچھے ہوتا چلا آرہا تھا کہ جو بعد میں آنے والے ہوں ان کے متعلق کسی کو اشتباہ نہ رہے۔ مگر قرآن نے جہاں ایمان کا ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ سے پہلے نازل ہونے والی وحی اور پہلے انبیاء کا ذکر فرمایا لیکن بعد میں آنے والی کسی وحی یا نبی کا کہیں ذکر نہیں۔ پھر صرف اس آیت میں نہیں بلکہ قرآن کریم میں یہ مضمون اول سے آخر تک بیسویں دفعہ مختلف مقامات پر آچکا ہے۔ سب میں رسول اللہ ﷺ سے پہلے انبیاء پہلی وحی اور پہلی کتابوں کا ذکر ہے کسی ایک آیت میں اس کا اشارہ تک نہیں کہ آئندہ بھی کوئی وحی یا نبی آنے والا ہے جس پر ایمان لانا ہے۔ یہاں اشارہ کردیا ہے تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔ vi: ایمان بالآخرۃ : 10: زیر نظر آیت میں جو متقیوں کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں ان میں سے متقیوں کا یہ چھٹا اور آخری وصف بیان کیا گیا ہے۔ جو الآخرۃ یا عالم آخرت ہے یعنی وہ عالم جو موجودہ سلسلہ زندگی کے بعد شروع ہوگا۔ اسے آخرت کہا ہی اس لئے جاتا ہے کہ وہ اس دنیوی زندگی کے خاتمہ کے بعد پیش آئے گا۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر کہیں دار الآخرۃ سے آیا ہے اور کہیں صرف آخرۃ سے ۔ اس میں سب سے ضروری اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جزا و سزا کے لئے ایک مستقل آئندہ عالم پر یقین رکھنا دین صحیح کے لوازم میں سے ہے اور اس سے تردیدہو جاتی ہے ان باطل مذاہب کی جو کہنے کو تو مذہب ہیں لیکن یہاں تو سرے سے جزاء اعمال ہی کے قائل نہیں یا قائل ہیں تو اس جزاء و سزا کا محل و مکان اسی عالم موجود کو سمجھتے ہیں۔ خواہ ایک ہی قالب میں یا کئی کئی قالبوں میں۔ بعض جدید اہل باطل نے الآخرۃ کا ترجمہ کیا ہے : ” زمانہ آخری کی وحی “ تاکہ اس سے ان کی خود ساختہ نبوت کا اجرا قرآن سے ثابت ہو ۔ لیکن تعجب یہ ہے کہ یہ ترجمہ ہے نہ تفسیر بلکہ یہ قرآن کریم اور عربی لغت دونوں کے ساتھ تمسخر و تلعب ہے جو متقیوں کے اوصاف سے بہت بعید ہے۔ قابل یاد داشت امریہ ہے کہ آخرۃ نام ہے ایک مجموعہ نظریات کا جس کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظریہ ہونا کہ اس عالم دنیا کے مکمل خاتمہ کے بعد اللہ ایک دوسرا عالم بنائے گا اور اس میں پوری نوع انسانی کو جو ابتدائی زمانہ سے انتہائی زمانہ یعنی قیامت تک اس دھرتی پر پیدا ہوئی تھی بیک وقت دوبارا پیدا کر دے گا اور سب کو جمع کر کے ان کے اعمال کا مکمل حساب لے گا اور ہر ایک کو اس کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ یہ نظریہ کہ آخری زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا اصل معیار اس دنیا کی خوش حالی اور بدحالی نہیں ہے بلکہ حقیقت میں کامیاب وہی ہے جو اللہ کے آخری فیصلے میں کامیاب ٹھہرے گا اور ناکام وہی اصل ناکام ہوگا جو وہاں ناکام ہوگا۔ یہ نظریہ کہ اللہ تعالیٰ کے آخری فیصلے میں جو کامیاب قرار پائیں گے وہ جنت کے اور اس کے انعامات کے مستحق ہوں گے اور جو ناکام ٹھہریں گے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے اور دوزخ کا عذاب انہیں کے حصہ میں آئے گا۔ یہ نظریہ کہ دنیا کا موجودہ نظام یقیناً مبدل ہے لیکن اس کی تبدیلی کا وقت صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ یہ نظریہ کہ انسان اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اپنے تمام اعمال کا اپنے مالک حقیقی کے سامنے جوابدہ ہے۔ یہ نظریہ کہ اللہ کے سوا اس دن کسی کا کوئی حمایتی اور بوجھ اٹھانے والا نہیں ہوگا اور اس دارالعمل میں جن لوگوں پر انحصار کر کے اس نے ارتکاب جرم کیا ہے اس کے ہرگز کام نہیں آسکیں گے۔
Top