Maarif-ul-Quran - Al-Muminoon : 12
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : البتہ ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے سُلٰلَةٍ : خلاصہ (چنی ہوئی) مِّنْ طِيْنٍ : مٹی سے
اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے
ذکر مبدأ ومعاد۔ و دلائل توحید قال اللہ تعالیٰ ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین .... الیٰ .... وعلیٰ الفلک تحملون۔ (ربط) گزشتہ آیات میں اہل سعادت اور اہل فلاح کا ذکر تھا۔ اب آئندہ آیات میں ان کے مبداء اور معاد کو بیان کرتے ہیں۔ (ربط دیگر) کہ گزشتہ آیات میں مومنین مفلحین کے لیے جنت الفردوس کا وعدہ تھا تو منکرین حشر اس بات کو نہیں مانتے تھے اس لیے آئندہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی ابتدائی پیدائش کا حال ذکر فرمایا تاکہ اس کی کمال قدرت ثابت ہو اور قیامت کے لیے دلیل بنے اور انسان کو اپنا مبداء اور معاد معلوم ہوجائے۔ (ربط دیگر) کہ گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور بندگی کو فلاح اور کامیابی کا دار و مدار بتلایا۔ اب آئندہ آیات میں اپنی الوہیت اور وحدانیت کے دلائل بیان کرتے ہیں جس سے عابد کو اپنے معبود کی معرفت کاملہ حاصل ہو اس سلسلہ حق جل شانہ نے چار قسم کے دلائل ذکر فرمائے۔ (اول) انسان کی پیدائش کو اور مختلف اطوار اور ادوار سے سے اس کے گزرنے کو اور پھر مرنے کے بعد اس کے دوبارہ زندہ ہونے کو بیان فرمایا۔ (دوم) آسمانوں کی عجائب صفت کو ذکر فرمایا کما قال اللہ تعالیٰ ولقد خلقنا فوقکم سبع طرائق۔ (سوم) آسمان سے پانی نازل کرنا کما قال اللہ تعالیٰ وانزلنا من السماء ماء بقدر۔ (چہارم) حیوانات مختلفہ الادضاع اور مختلف المنافع کا پیدا کرنا بیان کیا کما قال اللہ تعالیٰ وان لکم فی الانعام لعبرۃ الخ تاکہ ان دلائل سے حق تعالیٰ کی کمال قدرت خوب واضح ہوجائے اور یقین کرلے کہ خدا تعالیٰ کو دوبارہ زندہ کرنا کوئی مشکل نہیں چناچہ فرماتے ہیں۔ قسم اول ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین .... الیٰ .... ثم انکم یوم القیمۃ تبعثون۔ اور بیشک ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اس کو نطفہ بنا کر ایک محفوظ قرار گاہ میں یعنی رحم میں رکھا پھر ہم نے نطفہ کو جما ہوا خون بنایا پھر اس جمے ہوئے خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا پھر اس میں روح پھونک کر اس کو ایک نئی صورت میں کھڑا کیا یعنی پھر ہم نے اس کو انسانی صورت و شکل عطا کی جس سے اس کی خلقت اور پیدائش ہی دوسری ہوگئی کہ روح پھونکنے سے وہ حرکت کرنے لگا اور سمجھنے لگا۔ جمادیت سے نباتیت میں داخل ہوا اور پھر نباتیت سے حیوانیت میں داخل ہوا اور پھر حیوانیت سے انسانیت میں داخل ہوا۔ ان عجیب و غریب تغیرات اور انقلابات میں ذرا غور کرو کہ دوسری حالت پہلی حالت سے بالکل مغایر و مباین ہے۔ اور پھر پیدائش کے بعد سے بڑھاپے تک جو تغیرات پیش آتے ہیں وہ سب تمہاری نظروں کے سامنے ہیں تو کیا یہ تغیرات خود بخود پیش آتے ہیں یا کسی بےشعور مادہ اور نیچر کا طبعی اقتضاء ہے یا محض کوئی اتفاقی امر ہے یہ کچھ نہیں بلکہ صرف ایک علیم و قدیر کی کاریگری اور اس کی قدرت کاملہ کا کرشمہ ہے، پس بڑا ہی بزرگ ہے اللہ جو سب کاریگروں میں سب سے بہتر ہے کہ کسی صناع کی صنعت اور کاریگری اس کی صنعت اور کاریگری کو نہیں پہنچ سکتی۔ ع کہ کرد است بر آب صورت گری اس آیت میں ” خالقین “ سے خالق حقیقی کے معنی مراد نہیں تاکہ یہ شبہ کیا جائے کہ خالق حقیقی متعدد ہوسکتے ہیں بلکہ خالق کے معنی صناع اور کاریگری کے ہیں۔ پھر اس پیدائش کے کچھ عرصہ بعد بلاشبہ تم مردہ ہوجاتے ہو اور تمہارا سارا حسن و جمال خاک میں مل جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ اس پیدائش کے بعد تمہارا انجام موت ہے، پھر تم قیامت کے دن حساب و کتاب کے لیے اسی مٹی سے زندہ کرکے اٹھائے جاؤ گے۔ پہلی پیدائش بھی تمہاری مٹی سے ہوئی تھی اور پھر دوسری پیدائش بھی اسی مٹی سے ہوگی، پس جو ذات اجزاء نطفہ کو انسان بنانے پر قادر ہے وہ اس اجزاء منتشرہ کو جمع کرکے اس میں دوبارہ جان ڈالنے پر بطریق اولیٰ قادر ہے۔ انسان کا مبداء ہی اس کے معاد کی دلیل ہے جو فلاسفہ حشر اجساد کو ناممکن سمجھتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مبداء ہی کو نہیں سمجھے ہوئے ہیں جو ذات اجزاء نطفہ میں انسان ہونے کی استعداد اور صلاحیت پیدا کرنے پر قادر ہے وہ انسان کے اجزاء منتشرہ میں دوبارہ انسان ہونے کی استعداد اور صلاحیت پیدا کرنے پر کیوں قادر نہیں پس جب وہ ایک مشت خاک اور قطرہ منی سے ایک زندہ انسان اور متکلم انسان بنانے پر قادر ہے تو ایک زندہ اور متکلم ہستی کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ اور متکلم بنانا کیا مشکل ہے۔ لہٰذا جو زات تمہاری موت اور حیات کی اور تمہارے وجود اور عدم کی مالک ہے وہی تمہارا خدا ہے جس طرح اس نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اسی طرح تم کو وہ دوبارہ مرنے کے بعد پیدا کرے گا۔ اور یقین رکھو کہ تم کیسے ہی توانا اور دانا اور فلسفی اور سائنسدان بن جاؤ مگر انجام تمہارا موت ہے اور سمجھ لو کہ اس جہان کی زندگی اس جہان کی زندگی کا نمونہ ہے، سفر در پیش ہے تیاری کرلو۔ فلسفہ اور سائنس موت سے نہیں بچا سکتا۔ قسم دوم ولقد خلقنا فوقکم سبع طرائق وما کنا عن الخلق غفلین۔ اور البتہ تحقیق ہم نے تمہارے اوپر راستوں والے سات طبق پیدا کیے یعنی سات آسمان پیدا کیے ایک طبقہ کے اوپر دوسرا طبقہ جس میں فرشتوں کی آمدورفت کی راہیں ہیں اور وہ راہیں اس قدر بلند ہیں کہ نگاہیں ان کے ادراک سے قاصر ہیں اور چونکہ آسمان زمین سے پانسو میل کے راہ پر ہے اس لیے دوربین بھی وہاں کام نہیں دیتے اور کسی چیز کا دوربین وغیرہ سے نظر آنا یہ اس شئے کے معدوم ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتا اور کسی چیز کا محض اس بنا پر انکار کردینا کہ یہ چیز ہمارے دائرہ ادراک اور احساس سے خارج ہے۔ جہالت اور حماقت ہے۔ جب چیزوں کا انسان ادراک کرسکا وہ محدود اور قلیل مقدار میں ہیں اور جن چیزوں تک انسان کی رسائی نہیں ہوئی وہ غیر محدود اور غیر متناہی ہیں اور محدود تجربہ کی بنا پر غیر محدود چیزوں پر حکم لگانا یہ غیر محدود جہالت اور غیر متناہی حماقت کی دلیل ہے۔ اور ہم اپنی مخلوق سے غافل اور بیخبر نہیں آسمان اور زمین کا کوئی حال ہم سے پوشیدہ نہیں یہ تمام کائنات اس کے علم اور قدرت سے قائم اور محفوظ ہیں یہ سب ہماری مخلوق ہے ہم سے کیسے پوشیدہ رہ سکتی ہے۔ قسم سوم وانزلنا من السماء ماء بقدر .... الیٰ .... وصبغ للاکلین۔ اور ہم نے ایک اندازہ کے ساتھ آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس کو زمین میں ٹھہرایا تاکہ وہ اپنی تمہاری حیات اور زندگی کا سامان بنے اور جس طرح ہم اس پانی کے نازل کرنے پر قادر ہیں بلاشبہ اسی طرح ہم اس پانی کے لیے جانے پر قادر ہیں کہ زمین کو شک اور بنجر بنا دیں۔ اور تم پیاسے مرجاؤ پھر ہم نے اپنے اس نازل کردہ پانی سے تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ تمہارے لیے ان باغات میں کھجوروں اور انگور اور بھی بہت سے میوے ہیں۔ جن سے تم لذت حاصل کرتے رہو، اور ان باغات میں سے کھاتے بھی ہو اور ہم نے اسی پانی سے تمہارے لیے زیتون کا درخت پیدا کیا جو طور سینا سے بکثرت اگتا ہے جو تیل کو اور کھانے والوں کے لیے سالن کو لے کر اگتا ہے۔ وہ زیتون کا درخت ہے جس سے روغن نکلتا ہے جو سینہ کے امراض کے لیے غایت درجہ مفید ہے اور کھانے والوں کے لیے وہ سالن کا کام دیتا ہے یہ بڑا مبارک درخت ہے جس کے منافع کثیر ہیں اس لیے خصوصیت سے اس کا ذکر فرمایا۔ قسم چہارم وان لکم فی الانعام لعبرۃ .... الیٰ .... وعلی الفلک تحملون۔ نباتات کے بعد حیوانات میں اپنی قدرت اور اپنی نعمت کا ذکر کرتے ہیں کہ تم ان کے گوشت اور پوست اور ان کے دودھ سے اور ان کی سواری سے نفع اٹھاتے ہو ان نعمتوں سے اپنے منعم حقیقی کو پہچانو۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے لوگو ! تحقیق ان چوپایوں میں تمہارے لیے بڑی عبرت اور نصیحت کا سامان ہے اگر تم ان میں غوروفکر کرو تو خدا کی قدرت کو اور اس کی نعمت کو سمجھ سکتے ہو ہم ان کے پیٹوں میں سے جو خالص دودھ نکالتے ہیں اس میں سے ہم تم کو پلاتے ہیں خدا کی عجیب قدرت ہے کہ وہ خدا فرث اور دم یعنی گوبر اور خون کے درمیان سے تمہارے لیے ایک نہایت خوش ذائقہ اور خوشگوار اور لذیذ غذا نکالتا ہے جس میں گوبر اور خون کی کوئی آمیزش نہیں ہوتی یعنی دودھ جو تمہاری غذا بھی ہے اور دوا بھی ہے اور کھانا بھی ہے اور پینا بھی ہے سوائے خدا تعالیٰ کے کون ایسا کرسکتا ہے۔ (اس مضمون کی زیادہ تفسیر سورة نحل میں گزر چکی ہے) اور اس کے علاوہ اور بھی تمہارے لیے ان چوپایوں میں بہت سے فوائد ہیں۔ ان کے گھر اور مکھن اور صوف اور اون وغیرہ تمہارے کام آتے ہیں اور یہ جانور تمہارے زراعت میں کام دیتے ہیں اور ان میں سے بعض جانوروں کو تم کھاتے ہو یعنی ان کا گوشت کھاتے ہو اور خشکی میں تم ان جانوروں پر سوار ہوتے ہو اور ان سے بار برداری کا کام لیتے ہو اور تری میں تم کشتیوں پر لدے لدے پھرتے ہو، اور ان پر سوار ہو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہو، یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں اور اس کی قدرت کے کرشمے ہیں۔ اب آگے کشتی کی مناسبت سے نوح (علیہ السلام) کا قصہ ذکر فرماتے ہیں جن سے کشتی کی صنعت کا آغاز ہوا اور اس کے بعد دیگر انبیاء کرام (علیہ السلام) کے واقعات دیتے رہے اور یہ بتلاتے ہیں کہ منکرین توحید اور مکذبین رسل کا کیا انجام ہوا لہٰذا ان کے واقعات سے عبرت پکڑو۔
Top