Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 12
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : البتہ ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے سُلٰلَةٍ : خلاصہ (چنی ہوئی) مِّنْ طِيْنٍ : مٹی سے
اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا
آگے کے مضمون …… آیات 22-12 اوپر اہل ایمان کو جو بشارت دی گئی ہے اگرچہ وہ ایک حقیقت ہے اور اس کے اندر ایمان سے محروم منکرین قرآن کے لئے جو انذار مضمر ہے وہ بھی ایک حقیقت ہے لیکن جو لوگ سرے سے آخرت ہی کے قائل نہ ہوں، مرنحے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کو نہایت مستبعد سمجھ رہے ہیں ان پر اس انذار و بشارت کا کیا اثر ہوسکتا تھا وہ ان ساری باتوں کو محض واہمہ کی خلاقی سمجھتے اور ان کا مذاق اڑاتے۔ ان کے اعتراضات کو سامنے رکھ کر آگے، نفس و آفاق کی ان نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے وجود کی تشکیل جن مراحل سے گزرتی ہے اگر کوئی اسی پر غور کرے تو اس کو اس بات میں ذرا بھی شبہ نہیں رہ جائے گا کہ جو خدا یہ سب کچھ کرسکتا ہے اس کے لئے کسی چیز کے مر کھپ جانے کے بعد اس کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے وجود سے باہر اس کائنات پر غور کرے تو اس کو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ اس کا خالق اسکو پیدا کر کے کسی گوشے میں نہیں جا بیٹھا ہے بلکہ وہ نہایت بیداری اور اہتمام، نہایت ہی انعام و اکرام اور نہایت ہی قدرت و شان کے ساتھ اس کی نگہداشت و پرورش فرما رہا ہے۔ تو جب وہ یہ سب کھچ کر رہا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ لوگوں کو یوں ہی شتر بےمہار بناکر چھوڑے رکھے، نیکوں کو ان کی نیکیوں کا انعام اور بدوں کو ان کے بدیوں کی سزا دینے کے لئے ایک روز جزا و سزا نہ لانے ! یہ دلیل سورة حج کی آیت 5 میں بھی بیان ہوچکی ہے۔ یہاں یہ کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے اور اس کے وہ پہلو بھی نمایاں ہوئے ہیں جو وہاں مخفی رہ گئے تھے … اسی روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ آیت 14-12 انسان کا اپنا وجود خدا اور آخرت کا شاہد ہے انسان کی خلقت کے ان تدریجی مراحل کا بیان، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، سورة حج میں بھی گزر چکا ہے۔ وہاں اس کی تمہید ان کنتم فی ریب من البعمث سے اٹھائی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مقصود اس کے بیان سے زندگی بعد الموت کا اثبات ہے نیز وہاں اثنائے کلام میں لنبین لکم کے الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں جو اس حقیقت کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ انسان کی خلقت کے لئے اللہ تعالیٰ نے تدریج و ترقی کا یہ اہتمام اس لئے فرمایا کہ ہر انسان کا اپنا وجود خدا کی قدرت، اس کی حکمت اور اس کی پروردگاری کا ایسا نشان ہو کہ آخرت کے باب میں اس کو کسی خارجی دلیل کی ضرورت باقی نہ رہے۔ سورة حج میں اس آیت کے الفاظ کی بھی تحقیق گزر چکی ہے اور اس کا مدعا بھی تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ یہاں اعادے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک انسان کی خلقت کا تعلق ہے یہ تمام مراحل بالکل معلوم و معروف ہیں۔ جدید سائنس نے اس کے بعد ایسے گوشے بھی بےنقاب کردیئے ہیں جن کی طرف قرآن نے صرف اشارہ کر کے چھوڑ دیا تھا کہ انسان کے علم میں جتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا اتنے ہی اس کے اسرار کھلتے جائیں گے۔ اس نوع کی بعض باتوں کی طرف ہم پیچھے اس کتاب میں اشارہ کر آئے ہیں۔ غرض یہ راز تو سب کو معلوم ہے کہ مٹی کے جوہر سے وجود میں آنے والی پانی کی ایک بوند ہے جس کو قدرت پر ورش کر کے درجہ بدرجہ اس طرح پروان چڑھاتی ہے کہ بالآخر وہ سقراط و بقراط اور ارسطو و جالینوس کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ آپ سے آپ ہو رہا ہے ؟ کیا یہ ساری تدریج و تکمیل اور ساری تربیت و نگہدشات محض اندھے بہرے مادے کی کار فرمائی ہے ؟ کیا یہ تمام قدرت و حکمت اور تمام ربوبیت ورافت بالکل بےمقصد وغایت ایک کھل ہے جس کے پیچھے کوئی نتیجہ اور انجام نہیں ہے ؟ کیا جو پانی کی ایک بوند کو، آدمی بنا سکتا ہے، وہ اس آدمی کو مر نے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا ؟ یہی سوالات ہیں جن کے جواب میں نادانوں کے، اگرچہ وہ فلسفی اور سائنسدان کے معزز ناموں ہی سے موسوم ہوں، اختلاف کیا ہے۔ قرآن نے انیے سوالوں کے جواب کے لئے انسان کو خود اس کے وجود کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ان کے جواب کے لئے دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خود اپنے وجود کے مراحل پر غور کرو، ہر سوال کا جواب مل جائے گا۔ ثم انشانہ خلقا اخر میں اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کہاں پانی کی ایک بوند اور کہاں ایک بھلا چنگا، عاقل و بالغ انسان، دونوں میں کیا نسبت ہے ! لیکن ہر انسان کے وجود میں قدرت کا یہ کرشمہ موجود ہے تو جس قدرت کا یہ کرشمہ ہر وجود میں مشاہدہ کرتے ہو اس سے یہ کیوں بعید سمجھتے ہو کہ وہ تمہیں دوبارہ اٹھا کھڑا کرنے کیا وہ کام اس سے زیادہ مشکل ہے ! فتبرک اللہ احسن الخلقین یہ وہ تاثر اور نتیجہ بیان ہوا ہے جو انسان کی خلقت کے ان تمام مراحل پر غور کرنے کے سامنے آنا چاہئے کہ اللہ جس نے ایک ایک وجود کے اندر اپنی یہ شانیں اور حکمتیں اور یہ عنایتیں اور برکتیں ظاہر فرمائی ہیں، بڑی ہی بابرکت اور بافیض ہستی ہے کہ اس نے ذلیل پانی کی ایک بوند کو رحم مادر کے صدف میں پرورش کر کے ایک گوہر آبدار بنا کر نکالا اور اس کے اندر ایسی اعلیٰ صلاحیتیں ودیعت فرمائیں کہ وہ فرشتوں کا مسجود اور زمین میں خدا کی خلافت کا اہل ٹھہرا۔ مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر غور کرنے سے آدمی کے اندر صرف خدا کا اقرار ہی نہیں پیدا ہوتا بلکہ اس کے بےپایاں فیض و جود والی ہستی اور اس کے نہایت حکیم و قدیر اور نہایت اعلیٰ و برتر خالق ہونے کا یقین پیدا ہوتا ہے۔ یہاں عربی زبان کے اسلوب کو بھی یاد رکھیے کہ افضل کا صیغہ بالخصوص جب کہ وہ جمع کی طرف مضاف ہو بسا اوقات تفصیل و ترجیح کے مفہوم سے ممجرد ہو کر محض اعلیٰ مرتبہ صفت کے اظہار کے لئے آتا ہے۔ اس وجہ سے احسن الخلقین کے معنی ہوں گے کہ وہ صرف خالق ہی نہیں بلکہ بہترین خالق ہے۔ اس نے انسان کو جیسا تیسا پیدا ہی نہیں کردیا ہے بلکہ بہترین ساخت اور بہترین صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس اسلوب سے ناواقفیت کے باعث لفظ خالق کا مفہوم بدل دیا ہے حالانکہ اس قسم کے کسی تصرف کی ضرورت نہیں ہے۔ مقصود یہاں یہ ظاہر کرنا ہے کہ انسان کی خلقت خود اس بات کی شاہد ہے کہ وہ کسی اندھے بہرے مادے، یا کسی محرک اول یا علتہ العل کی ایجاد نہیں ہے اور نہ اس کا ارتقاء آپ سے آپ ہوا یا ہو رہا ہے بلکہ وہ سراپا خیر و برکت ہستی خدائے جو ادوکریم کا پیدا کیا ہوا ہے جو بہترین خالق ہے۔
Top