Al-Qurtubi - Al-Muminoon : 12
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : البتہ ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے سُلٰلَةٍ : خلاصہ (چنی ہوئی) مِّنْ طِيْنٍ : مٹی سے
اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے
اس میں پانچ مسئلے ہیں۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولقد خلقنا الانسان یہاں انسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں۔ یہ قتادہ وغیرہ کا قول ہے کیونکہ وہ مٹی سے بنائے گئے تھے پھر ثم جعلنہ کی ضمیر کا مرجع ابن آدم ہے اگرچہ اس کا پہلے ذکر نہیں کیا لیکن شہرت امر کیو جہ سے یہ صحیح ہے کیونکہ معنی صرف اسی صورت میں صحیح ہوتا ہے اس کی مثال یہ ہے حتیٰ توارت بالحجاب۔ (ص) بعض علماء نے فرمایا : سللۃ سے مراد ابن آدم ہے یہ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ کا قول ہے اس بناء پر السلالۃ سے مراد صاف پانی یعنی منی ہوگی۔ السلالۃ، السل سے فعالہ کا وزن ہے۔ اس کا مطلب کسی چیز کو دوسری چیز سے نکالنا۔ کہا جاتا ہے۔ سللت الشعر من العجین میں نے آٹے سے بال نکالا اور نیام سے میں نے تلوار نکالی۔ السیف من الغمداسی سے شاعر کا قول ہے۔ فسلی ثیابی من ثیابک تسل النطفہ کو سلالۃ بچے کو سلیل وسلالۃ کہتے ہیں اس سے مراد وہ پانی لیا جاتا ہے جو پیٹھ سے نکالا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا : فجاءت بہ عضب الادیم غضنفرا سلالہ فرج کان غیر حصین اور ایک شاعر نے کہا : وما ھند الا مھرۃ عربیۃ سلیلۃ افراس تجللھا بغل اور من طین۔ حضرت آدم علیہ اسلام کی اصل مٹی سے ہے۔ میں کہتا ہوں : یعنی خالص مٹی سے ہے جیسا کہ ہم نے سورة انعام کے آغاز میں بیان کیا ہے۔ کلبی نے کہا : ا لسلالہ اس مٹی کو کہتے ہیں جب تو ان سے نچوڑے تو وہ تیری انگلیوں کے درمیان سے نکلے اور جو نکلتی ہے اسے السلالہ کہتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ نطفۃ، نطفہ، علقہ، مضغتہ اور ان کے متعلق احکام سورة حج کے آغاز میں گزر چکے ہیں۔ الحمد للہ علی ذالک مسئلہ نمبر 3 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم انشانہ خلقا اخر خلق آخر کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ، ثعلبی، ابو العالیہ، ضحاک اور ابن زید نے کہا : اس کے جماد ہونے کے بعد اس میں روح پھونکنا۔ (المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 138) ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے اس کا دنیا کی طرف نکلنا ہے۔ قتادہ نے ایک جماعت سے روایت کیا کہ بالوں کا اگنا ہے۔ ضحاک نے کہا : دانتوں کا نکلنا اور بالوں کا نکلنا ہے۔ مجاہد نے کہا : اس کے شباب کا کمال ہے، یہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اس میں اور دوسری چیزیں نطق، ادراک، حسن گفتگو اور تحصیل المعقولات یعنی مرنے تک جو مراحل آتے ہیں سب کو شامل ہے۔
Top