Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 12
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : البتہ ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے سُلٰلَةٍ : خلاصہ (چنی ہوئی) مِّنْ طِيْنٍ : مٹی سے
بیشک ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ۔ ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ۔ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ق ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ ۔ (المومنون : 12 تا 14) (بےشک ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے پانی کی بوند بنا کر ایک محفوظ مستقر میں رکھا۔ پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کا لوتھڑا بنایا، پھر ہم نے اس لوتھڑے کو گوشت کی بوٹی بنادیا، پھر اس بوٹی سے ہڈیاں پیدا کردیں، پھر ہم نے ان ہڈیوں کو گوشت پہنادیا، پھر ہم نے اسے ایک دوسری ہی مخلوق بناکھڑا کیا، پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ بہترین پیدا کرنے والا۔ ) آیت کا پس منظر قرآن کریم کے اصل موضوع کی طرح اس سورة کا موضوع بھی انسانی افکار و کردار کی اصلاح ہے۔ اس اصلاح کے حوالے سے اساسی صداقتوں کی تعلیم بھی دی گئی ہے اور ان کے مطابق تعمیرِ کردار کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے قبول نہ کرنے کے نتیجے میں ترہیب سے کام لیا گیا اور برے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔ ترغیب ہی کے سلسلے میں اسلام کی پیش کردہ اساسی صداقتوں سے وجود میں آنے والے کردار کے نمونوں کو بھی دکھایا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ قرآن کریم جس طرح کے انسان پیدا کرنا چاہتا ہے وہ پیش نظر صفات سے متصف لوگ ہوتے ہیں اور اسی میں ایک انذار بھی مضمر رکھا گیا ہے۔ جو بہ ادنیٰ تأمل سمجھ میں آسکتا ہے کہ اگر اسلام کی تعلیم کا نتیجہ ایسے انسان ہیں جو یہاں بھی اور قیامت کے دن بھی اللہ کے افضال و عنایات کے مستحق ٹھہریں گے تو جو لوگ ان باتوں کو قبول نہیں کریں گے بلکہ انکار کی روش اپنا لیں گے وہ یقینا ایسے برے اوصاف کے حامل ہوں گے جو اللہ کے یہاں دنیا اور آخرت دونوں میں اس کی ناراضگی کا سبب بنیں گے۔ گزشتہ آیات کریمہ میں مطلوب انسانوں کی تصویر کشی کی گئی اور ان کے سراپا کو مختلف صفات کے آئینہ میں نمایاں کیا گیا ہے اور پھر اس کے آخر میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ یہی لوگ اللہ کے یہاں جنت الفردوس کے وارث ہوں گے اور گزشتہ سورة میں اس سے پہلے یہ بات ذکر کردی گئی ہے کہ یہی لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ خلافتِ ارضی سے نوازے گا۔ جب غور و فکر کرنے والا اس کے دوسرے پہلو پر نظر کرتا ہے تو فوراً اس کے ذہن میں یہ بات سڑائیک (Strike) کرتی ہے کہ اگر ایسی صفات کے حامل لوگ دنیوی اور خروی کامیابیوں کے مستحق ٹھہریں گے تو جو لوگ ان صفات سے عاری ہوں گے وہ یقینا اللہ کی ناراضگی اور اس کے نتیجے میں ناکامیوں سے دوچار ہوں گے۔ اس لیے یہ کہنا چاہیے کہ ان آیتوں میں اگر مسلمانوں کے لیے بشارتیں ہیں تو کافروں کے لیے انذار کا پہلو بھی موجود ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ آیات دلائل کی حیثیت بھی رکھتی ہیں کہ دیکھ لو قرآن کریم کی پیش کردہ تعلیم اور تہذیب نے کیسے قابل فخر انسان پیدا کیے ہیں۔ انھیں دیکھ کر کوئی عقلمند آدمی اس تعلیم کو نظر انداز نہیں کرسکتا اور مزید یہ بات کہ اسی تعلیم کے نتیجے میں دنیوی اور اخروی کامیابیوں کا راستہ کھلتا ہے تو جو شخص کامیابی کے راستے پر چلنا چاہتا ہے تو اس کے لیے بہت مشکل ہے کہ ان بنیادی صداقتوں سے صرف نظر کرسکے۔ متذکرہ بالا پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگ قرآن کی پیش کردہ ان بنیادی صداقتوں کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مکہ کے نہایت بگڑے ہوئے ماحول میں ایسے صالح اور صاحب کردار انسان وجود میں آئے ہیں جو انسانیت کا سرمایہ ہیں تو دیکھنا چاہیے کہ ان کے انکار کا بنیادی سبب کیا ہے۔ چناچہ پیش نظر آیات میں اس بنیادی سبب کو متعین کرتے ہوئے اس کے رد اور انکار کے لیے مختلف دلائل دیئے گئے ہیں۔ جن میں سب سے پہلے دلائل انفس کا ذکر کیا گیا ہے۔ کفار کے انکار کا بنیادی سبب ان کے انکار کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت کے آنے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کی عقل میں یہ بات کسی طرح سما نہیں رہی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جب سے اس زمین پر انسان آباد ہوا ہے اس وقت سے انسان پیدا بھی ہورہے ہیں اور اپنا وقت آنے پر مر بھی رہے ہیں اور جب تک اس زمین پر انسان آباد ہے اس وقت تک یہ موت وحیات کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ اگر قیامت کے آنے کا یہ مطلب ہے کہ اس کا وقوع دو مرحلوں میں ہوگا۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ تمام انسان ایک ہی صور کے پھونکے جانے سے ہلاک ہوجائیں گے۔ اندازہ کیجیے ! زمین کا کونسا گوشہ انسانوں سے خالی ہے تو کیا یہ بات قابل فہم ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی آوز گونجنے سے زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات ہلاکت کی نذر ہوجائیں ؟ بلکہ زمین بھی ٹوٹ پھوٹ جائے، اس پر جمے ہوئے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں۔ چلیے اگر اس بات کو قبول بھی کرلیا جائے کہ ایک دن زندگی کی بساط لپیٹ دی جائے گی تو قیامت کا دوسرا مرحلہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تمام انسان دوبارہ زندہ کیے جائیں گے ہر شخص اپنی قبر سے اٹھے گا اور میدانِ حشر کی طرف چلنا شروع کردے گا۔ یہ بات تو کسی طرح بھی عقل میں آنے والی نہیں کہ اربوں کھربوں سال میں مرنے والے انسان نجانے کہاں کہاں مرے اور کہاں کہاں دفن ہوئے اور پھر کتنے ایسے انسان ہیں جن کو قبر بھی میسر نہ آسکی اور جنھیں قبر ملی بھی وہ وقت کے ساتھ ساتھ مٹ گئی۔ قبرستان آبادیوں میں گم ہوگئے، آبادیاں بعض دفعہ زمین بوس ہوگئیں اور بعض دفعہ سیلاب انھیں بہا لے گیا۔ کتنے نئے جزیرے سمندر سے نکلے اور کتنے جزیرے سمندر میں ڈوب گئے۔ دریائوں نے کتنی دفعہ رخ بدلے اور کتنی دفعہ اپنے کنارے توڑتے ہوئے آبادیوں کو نگل گئے اور کتنی دفعہ پہاڑوں نے آتش فشانی کی اور ایسا لاوا اگلا جو انسانی بستیوں کو تباہ کرگیا۔ تو آخر یہ تمام تباہ ہونے والے جو اپنا نشان تک باقی چھوڑ کر نہیں گئے انھیں کیسے ازسر نو زندہ کیا جائے گا ؟ اور کس طرح سے ازسر نو انسانی آبادی وجود میں آئے گی اور میدانِ حشر اتنا عظیم کہاں ہوگا جو اربوں کھربوں سالوں کی مخلوق کو اپنے دامن میں جگہ دے سکے ؟ یہ وہ عقلی استبعادات ہیں جو ان لوگوں کو قیامت کے بارے میں یکسو ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ قیامت کی ایک ایک بات انھیں ناقابلِ وقوع اور ناممکن العمل دکھائی دیتی تھیں۔ قرآن کریم نے ایک ایک بات کا جواب دینے کی بجائے ایک ایسی جگہ انگلی رکھی ہے جہاں پانی مررہا ہے اور ایک ایسی بات پر گرفت کی ہے جو ان کی تمام گمراہیوں کا سبب ہے۔ وہ یہ ہے کہ تمہیں ان میں سے ہر بات ناممکن دکھائی دیتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے بارے میں نہایت محدود تصور رکھتے ہو اگر تمہیں اس کی قدرت کی وسعت کا اندازہ ہوتا اور اس کے بےپایاں ہونے کا کسی حد تک بھی یقین ہوتا تو تمہیں دنیا کی کوئی چیز جس کے بارے میں پروردگار خود ارشاد فرماتا ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا ناممکن دکھائی نہ دیتی۔ قرآن کریم نے اور بھی کئی مواقع پر کفار کی اسی بنیادی بیماری پر گرفت کی ہے اور اس کے لیے ایسی خوبصورت مثالیں چھوڑی ہیں کہ اگر کوئی شخص چشم بینا سے انھیں دیکھتا اور پڑھتا اور اس کی بصیرت موت کی نذر نہ ہوچکی ہوتی تو وہ کبھی بھی قیامت سے انکار نہ کرسکتا تھا۔ اصحابِ کہف کا تین سو سال تک سوئے رہنا اور پھر زندہ ہونا اور لوگوں سے ملاقات کرنا یہ بجائے خود کتنی بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کسی کو جب تک چاہے سلائے رکھ سکتا ہے اور جب چاہے اسے اٹھا سکتا ہے۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) نے یروشلم کی حیران کن تباہی کو دیکھ کر بےساختہ یہ بات کہی تھی کہ یا اللہ اس مکمل تباہی کے بعد اس بستی کو تو کیسے زندہ کرے گا ؟ تو پروردگار نے انھیں سو سال تک کے لیے موت دے دی۔ سو سال کے بعد اٹھایا پوچھا کتنا عرصہ تم نے یہاں گزارا۔ کہا : شاید ایک دن یا دن کا ایک حصہ۔ فرمایا : نہیں، تم تو ایک صدی گزار چکے ہو۔ اب ذرا اپنی خوراک اور چھاگل میں اپنے پانی کو دیکھوجو تم ساتھ لے کر چلے تھے تاکہ راستے میں میں ان سے کام لوں گا۔ دیکھا کہ ان میں سڑاند تک پیدا نہیں ہوئی تھی۔ وہ بالکل ویسے ہی تروتازہ تھے جیسے آپ گھر سے لے کر چلے تھے۔ پھر فرمایا : اب ذرا اپنے گدھے کو دیکھو۔ دیکھا تو اس کی ہڈی ہڈی جدا ہوچکی تھی۔ کھال کا نشان تک نہ تھا۔ فرمایا : دیکھو ہم کس طرح ہڈیوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔ پھر کس طرح اس پر گوشت اور کھال چڑھاتے ہیں چناچہ ان کی آنکھوں کے سامنے گوشت چڑھنے کے بعد اچانک وہ گدھا کھڑ اہوکر بولنے لگا۔ حضرت عزیر زندگی اور موت کا راز تو کیا جانتے البتہ ! جس سبب سے ان کی زبان پر تعجب کا جملہ آگیا تھا اس کے حوالے سے فرمایا کہ اب میں خوب جان گیا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جس آدمی کو یہ یقین حاصل ہے اسے اللہ تعالیٰ کے کسی کام پر کبھی شک وشبہ لاحق نہیں ہوسکتا۔ چناچہ پیش نظر آیات کریمہ میں بھی انسان کے اپنے وجود اور اپنے وجود کی تخلیق کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ تم اپنی پیدائش کے ایک ایک مرحلے پر غور کرو ان میں سے کون سا مرحلہ ایسا ہے جسے عقل باور کرسکتی ہے۔ لیکن آج چونکہ یہ سارے مراحل ہماری نظروں کے سامنے ہیں تو ہمیں ان کے وجود سے انکار نہیں۔ دلیل نفسی سب سے پہلے یہ بات ارشاد فرمائی کہ ذرا غور کرو تمہارے جدِ امجد حضرت آدم (علیہ السلام) جنھیں اللہ نے خلافتِ ارضی سے نوازا اور جو زمین پر پہلے نبی اور رسول تھے انھیں ہم نے مٹی کے جوہر اور اس کے خلاصہ سے پیدا کیا تھا۔ یہ اللہ کی قدرت کا پہلا ظہور ہے کہ ایک شخص جسے مٹی کے خلاصے سے بنایا گیا اور قرآن کریم نے جس طرح سڑے ہوئے اور کھنکھناتے ہوئے گارے کا ذکر کیا ہے اس کو ذہن میں رکھیں تو تعجب میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے، یعنی مٹی کے خلاصے، سڑے ہوئے اور کھنکھناتے ہوئے گارے سے بننے والا وجود مسجودِ ملائک ٹھہرتا ہے، جنت میں مقام حاصل کرتا ہے پھر جنت ہی اس کی آخری قیام گاہ کے طور پر اس کا مطلوب بنادی جاتی ہے اور پھر دنیا کی نعمتیں اور عناصرِ قدرت کو اس کیلیے مسخر کردیا جاتا ہے اور پھر اسی پر بس نہیں اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک حیرت انگیز نظام وجود میں لایا جاتا ہے کہ اب نوع انسانی کا جو فرد شرفِ انسانی سے نوازا جائے گا اس کی ابتدا گندے پانی کی ایک بوند سے ہوگی۔ جو کپڑے کو لگ جائے تو کپڑا ناپاک ہوجاتا ہے اور پھر یہ پانی کی بوند اپنے اندر کوئی تخلیقی جوہر نہیں رکھتی بلکہ اس کے بننے اور وجود میں آنے کے لیے جن غذائوں نے کام کیا ہے وہ ساری مٹی سے پیدا ہوئی ہیں۔ اس لحاظ سے انھیں بھی مٹی کا جوہر کہا جاسکتا ہے اب اگر ایک سوچنے والا گہری نگاہ سے پانی کی اس بوند کے ایک ایک مرحلے کو دیکھے کہ وہ کس طرح ایک شخص کے جسم سے نکلتا ہے اور رحم مادر کے محفوظ مستقر میں اسے محفوظ کردیا جاتا ہے۔ رحمِ مادر میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اس میں کسی تبدیلی کا باعث بن سکے لیکن زیادہ وقت نہیں گزرتا کہ یہی پانی کی بوند خون کی ایک پھٹکی میں تبدیل ہوتی ہے اور پھر یہی گاڑھا خون گوشت کے ایک لوتھڑے کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ مزید کچھ مدت گزرتی ہے تو وہ رحم مادر جس میں باہر کا کوئی عامل اپنا اثر پیدا نہیں کرسکتا۔ وہ دنیا کی ہر محفوظ چیز سے بڑھ کر محفوظ چیز ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ اب تک کا عمل تو بالکل ویسا ہی تھا جیسا تمام حیوانوں میں جنین کی صورت میں وجود میں آتا ہے۔ لیکن اب اچانک یہ گوشت کا لوتھڑا ہڈیوں میں تبدیل ہونے لگتا ہے۔ اب اسے حیوانی نسل سے ممتاز کرکے نسل انسانی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ لیکن اب تک بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جسمِ انسانی کی ابتدا تو ہوگئی ہے لیکن حیات حیوانی کا وہی عمل جاری ہے جو اس سے پہلے رواں دواں تھا۔ لیکن اب نفس ناطقہ کے غلبے سے جنین جواب ایک جسم کی صورت اختیار کرگیا ہے اور جس کے اندر اب ایک حیات پیدا کردی گئی ہے اس نے اب ایک نئی شکل اختیار کرلی ہے۔ اسی سے متعلق فرمایا گیا : ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ” پھر ہم نے اسے ایک دوسری ہی مخلوق بناکر کھڑا کردیا “۔ البتہ ! یہ ضرور ہے کہ وضع حمل کے آغاز تک زندگی کی ابتدائی خصوصیات کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ نہ سماعت، نہ بصارت، نہ گویائی نہ عقل وخرد۔ لیکن جیسے ہی بچہ رحم مادر سے باہر آتا ہے تو جس طرح رحم مادر میں اس نے پانی کی بوند سے لے کر جسمِ انسانی اور حیات انسانی کا سفر مختلف مراحل میں طے کیا تھا اور ہر مرحلہ اپنے اندر غور و فکر کے بےپناہ مدارج رکھتا ہے۔ اسی طرح اب بھی اس کی زندگی کے مختلف مراحل کا سفر ایک نئی صورت میں شروع ہوجاتا ہے۔ اب بچہ ماں کی آغوش میں آتا ہے تو اسے کچھ پتہ نہیں کہ یہ میری ماں ہے۔ اسے یہ تک معلوم نہیں کہ میری غذا کہاں ہے۔ جب کہ حیوانات کے بچے پیدا ہوتے ہی بنیادی ضرورتیں حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ مرغی کا بچہ چند لمحوں کے بعد ماں کے پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہے۔ بلی کے بچے جیسے ہی آنکھیں کھولتے ہیں تو ماں کے پستان ڈھونڈ لیتے ہیں۔ گائے اور بھینس کے بچے ایک مختصر وقفے کے بعد لڑکھڑاتے ہوئے ماں کے پستان چوسنے لگتے ہیں۔ لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ ابتدائی مرحلے میں وہ نہ ماں کو پہچانتا ہے اور نہ باپ کو۔ قرآن کریم کہتا ہے : ھُوَالَّذِی اَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُونِ اُمَّھَاتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا ” اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہیں تمہاری مائوں کے پیـٹوں سے نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے “۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ حواس اپنا کام کرنے لگتے ہیں، آنکھیں دیکھنے لگتی ہیں، ہاتھ پکڑنے لگتے ہیں، کان سننے لگتے ہیں، ناک سونگھنے لگتی ہے، زبان چکھنے لگتی ہے۔ لیکن حواس کا یہ سفر بھی ایک تدریج کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ لڑکپن میں پہنچ کر بچہ حواس کے ساتھ ساتھ عقل سے بھی کام لینے لگتا ہے۔ عقل کا سفر بھی آہستہ آہستہ ارتقاء پذیر ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص پانی کی بوند کا تصور کرکے اس من موہنے بچے کو دیکھے جس کی مسکراہٹ ہر دل میں پیار کو جنم دیتی ہے تو اسے کبھی یقین نہیں آئے گا (اگر وہ اس عمل سے واقف نہیں) کہ پانی کی ایک بوند سے اس طرح کا بچہ وجود میں آسکتا ہے اور پھر پنگھوڑے میں ہنستے اور روتے ہوئے بچے کو دیکھ کر کوئی آدمی اس لڑکے کا تصور نہیں کرسکتا جو اب سکول جاتا ہے علم کی ابتدائی باتیں سیکھتا ہے، دوڑتا، بھاگتا، کھیلتا اور شرارتیں کرتا ہے۔ پھر جیسے جیسے زندگی کا سفر آگے بڑھتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے اندر ایک خودی ابھرنا شروع ہوتی ہے جو ہر چیز پر اپنا تحکم جتاتی اور اپنا زور منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر یہ سفر اور آگے بڑھتا ہے تو کہیں ایجادات حیران کرنے لگتی ہیں، کہیں طلاقتِ لسانی اپنا رنگ دکھاتی ہے، کہیں انشا پردازی اپنا جوہر دکھاتی ہے اور کہیں ایک شخص قوموں کی تاریخ بنانے یا سنوارنے لگتا ہے۔ یہ حیران کن تبدیلیاں اور حیرت انگیز کمالات اس شخص میں دکھائی دیتے ہیں جس کی ابتدا پانی کی ایک بوند سے ہوئی تھی تو آدمی بےاختیار پکار اٹھتا ہے۔ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ : ” پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ بہترین پیدا کرنے والا “۔ انسان جب دیکھتا ہے کہ پانی کی ایک بوند میں اللہ تعالیٰ نے کیسی حیرت انگیز تبدیلیاں کی ہیں اور پھر آخر میں ایک بالکل نئی مخلوق کی شکل میں پیدا فرمایا جس کا پہلے مراحل کو دیکھ کر اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اولاً تو انسان کا وجود بجائے خود اللہ کی قدرت کا شاہکار ہے لیکن پھر اس کے اندر حواس کا پیدا ہونا پھر جوہرِ عقل کے فانوس کا جلنا اور پھر رفتہ رفتہ ایسے کمالات کا جنم لیناجن میں غور و فکر کی صلاحیتیں بھی ہیں اور تسخیرِ کائنات کے حوصلے بھی اور حکمرانی کی امنگیں بھی ہیں اور سب کچھ ہوتے ہوئے فقر و درویشی کا سوز و گداز بھی اور پھر آخر میں ایک ایسا مرحلہ آتا ہے کہ جب ان کمالات کا حامل، دنیا کو اپنی شخصیت کے طلسموں سے حیرت میں ڈال دینے والا، جب زندگی کے آخری مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو شخصیت کی رعنائیاں ڈھلنے لگتی ہیں، زبان وبیان کے جوہر دکھانے والا قوت گویائی سے محروم ہونے لگتا ہے۔ حسن تدبر سے ہر مشکل سے مشکل مرحلے میں عقدہ کشائی کرنے والا بچوں جیسی حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ قرآن کریم کے الفاظ میں بہت کچھ جاننے والا علم کی ہر خوبی سے محروم ہوجاتا ہے تو بےساختہ آدمی کی زبان سے نکلتا ہے کہ پاک ہے اللہ اور بابرکت ہے جو بہترین پیدا کرنے والا ہے۔ تَبٰرَکَ اللّٰہُ کے الفاظ کا اردو زبان میں ٹھیک ترجمہ کرنا ممکن نہیں۔ اس کے استعمالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نہایت مقدس اور منزہ ہے اور دوسرا یہ کہ وہ اس قدر بھلائی اور خوبی کا مالک ہے کہ تم اس کی انتہا کو نہیں پاسکتے۔ اس کے مقدس اور منزہ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی خدائی میں کسی کو شریک نہ کیا جائے اور اس کے حسن و خوبی میں بےمثال ہونے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اس کے بارے میں کسی عجز ونقص کو فسادِ عقل سمجھا جائے اور کبھی اس وہم کو قریب نہ آنے دیا جائے کہ وہ دوبارہ مخلوقات کو پیدا نہیں کرسکتا کیونکہ یہ اس کے عجز کی دلیل ہے۔ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْن کا مفہوم اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ کا ترجمہ عموماً کیا جاتا ہے ” سب سے بہترپیدا کرنے والا “ کیونکہ ” احسن “ خالقین کی طرف مضاف ہے۔ پھر اس پر ایک اعتراض ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خالق اور بھی ہیں۔ البتہ ! اللہ تعالیٰ ان سب میں بہتر ہے جبکہ توحید کا تقاضا یہ ہے کہ اس بات کا یقین رکھا جائے کہ صرف اللہ ہی کی ذات خالق ہے اس کی صفت تخلیق میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ علماء کرام نے اس کا جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ خلق کا لفظ دراصل دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ 1 کسی چیز کو کسی موجود مادے اور سابقہ مثال کے بغیر پیدا کرنا۔ اس معنی کے لحاظ سے صرف اللہ تعالیٰ ہی کی یہ صفت ہے جو کسی اور میں نہیں پائی جاسکتی۔ 2 دوسرا معنی اس کا یہ ہے کہ کسی سابقہ مادہ سے کسی چیز کو کسی موجود مثال کے مطابق بنالینا۔ یہ صفت اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں میں بھی پائی جاسکتی ہے اور اسی حوالے سے دوسروں کے لیے اس لفظ کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ ” افعلُ “ کا لفظ جو اسم تفضیل کا صیغہ ہے۔ جب مضاف ہوتا ہے بشرطیکہ اس کا مضاف الیہ جمع ہو تو عموماً ترجیح اور تفضیل کے معنی سے مجرد ہو کر استعمال ہوتا ہے۔ چناچہ یہاں بھی یہ تفضیل سے مجرد ہو کر استعمال ہوا ہے اس لحاظ سے ہم اس کا ترجمہ یہ نہیں کریں گے کہ وہ سب پیدا کرنے والوں میں بہتر ہے بلکہ ہم اس کا ترجمہ کریں گے کہ ” وہ بہترین پیدا کرنے ولا ہے “۔ ایسی صورت میں کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا۔
Top