Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 31
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓئِكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَعَلَّمَ : اور سکھائے آدَمَ : آدم الْاَسْمَآءَ : نام كُلَّهَا : سب چیزیں ثُمَّ : پھر عَرَضَهُمْ : انہیں سامنے کیا عَلَى : پر الْمَلَائِکَةِ : فرشتے فَقَالَ : پھر کہا اَنْبِئُوْنِیْ : مجھ کو بتلاؤ بِاَسْمَآءِ : نام هٰٓؤُلَآءِ : ان اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور سکھائے اللہ نے (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے) آدم کو نام سب چیزوں کے پھر اس نے پیش فرمایا ان سب کو فرشتوں کے سامنے پھر فرمایا (ان سے) کہ بتاؤ مجھے نام ان چیزوں کے اگر تم سچے ہو
102 تعلیم آدم بذریعہ تعلیم اسماء : سو حضرت آدم کو تعلیم اسماء کے ذریعے نور علم سے نوازا گیا، اور تعلیم کے سلسلہ میں یہی وہ فطری طریقہ ہے جو اب تک جاری وساری ہے۔ چناچہ یہ علم حضرت آدم کی طبیعت وجبلت اور ان کی فطرت میں اس طرح ودیعت فرما دیا گیا، کہ وہ خود اپنی زندگی میں بھی ان چیزوں سے کام لے سکیں، اور ان کے بعد قیامت تک آنے والی ان کی اولاد بھی اس فطری و جبلی علم سے مستفید و فیضیاب ہوتی رہے۔ کیونکہ حضرت آدم (علیہ الصلوۃ والسلام) اور ان کی اولاد کو ان چیزوں سے واسطہ پڑنا تھا، اور ان کو ان کے استعمال کرنے کی ضرورت پیش آنا تھی، اس لئے اللہ پاک نے فطرت والہام کے طور پر ان تمام چیزوں کے نام، ان کے خواص، اور ان کے استعمال کے طور طریقے آدم کو سکھا دئیے، اور یہ اسی فطری علم اور الہامی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ اولاد آدم آج تک کائنات عالم میں پھیلی ہوئی، ان بیشمار چیزوں سے طرح طرح سے استفادہ کر رہی ہے، اور نت نئے انداز سے اس میدان میں ترقی کر رہی ہے، اور قیامت تک کرتی جائے گی، جبکہ فرشتے نوری مخلوق ہونے کے باعث ان چیزوں کے نہ محتاج ہیں، اور نہ ہی ان کو ان سے استفادہ کے لئے تعلیم کی ضرورت ہے، اس لئے ان کی فطرت وجبلت میں ان اشیاء کی تعلیم و دیعت نہیں فرمائی گئی، سو یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیم میں اصل اور بنیادی تعلیم تعلیم اسماء ہی ہے، اور یہی طریقہ آج تک چلا آرہا ہے۔ چناچہ آج بھی ایک بچے کو تعلیم دینے کے لئے اسی سے کام لیا جاتا ہے۔ یعنی " مَا ہٰذَا " (یہ کیا ہے ؟ ) اور " مَا ذٰلِکَ " (وہ کیا ہے ؟ ) وغیرہ۔ نیز یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بزرگی اور برتری کا سبب و معیار علم ہے، نہ کہ محض عبادت و بندگی، کہ فرشتوں کی عبادت و بندگی تو ضرب المثل تھی اور ہے، مگر اس کے باوجود خلافت و نیابت الٰہی کا شرف آدم اور اولاد آدم ہی کو بخشا گیا، جبکہ ان کا علمی تفوق فرشتوں پر واضح ہوگیا، اور فرشتوں کو صاف طور پر کہنا پڑا کہ مالک ! ہمیں اس کے سوا کچھ علم نہیں جو آپ نے ہمیں سکھایا، یہاں سے اہل بدعت کا وہ مغالطہ بھی رفع ہوگیا جو کہ وہ " کُلَّہا " کے عموم سے " علم غیب کلی " کے اپنے شرکیہ عقیدے کے بارے میں دیتے رہتے ہیں، کیونکہ اس کل سے مراد صرف وہ کل اشیاء ہیں جن سے آدم اور اولاد آدم کو واسطہ پڑنا تھا جیسا کہ حضرات مفسرین کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے، ورنہ اگر اس کا وہی عموم مراد لیا جائے جو کہ اہل بدعت لیتے ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ حضرت آدم نے سب کچھ جاننے کے باوجود شیطان سے دھوکہ کیوں کھایا ؟ جس کے نتیجے میں ان کو جنت سے بھی نکلنا پڑا ؟ سو یہ ایک کھلی دلیل اور واضح ثبوت ہے اس بات کا، کہ حضرت آدم نہ عالم غیب تھے اور نہ ہی مختار کل، جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور ان کو وہی علم دیا گیا تھا جسکی ان کو اور ان کی اولاد کو ضرورت پیش آسکتی تھی۔
Top