Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 31
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓئِكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَعَلَّمَ
: اور سکھائے
آدَمَ
: آدم
الْاَسْمَآءَ
: نام
كُلَّهَا
: سب چیزیں
ثُمَّ
: پھر
عَرَضَهُمْ
: انہیں سامنے کیا
عَلَى
: پر
الْمَلَائِکَةِ
: فرشتے
فَقَالَ
: پھر کہا
اَنْبِئُوْنِیْ
: مجھ کو بتلاؤ
بِاَسْمَآءِ
: نام
هٰٓؤُلَآءِ
: ان
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
صَادِقِیْنَ
: سچے
اور اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو سارے نام سکھا دیے ۔ پھر پیش کیا ان کو فرشتوں پر ۔ پس کہا مجھے ان چیزوں کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو
گزشتہ سے پیوستہ : اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو وحدانیت اختیار کرنے اور اپنے خالق کی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اس کی پہچان کے سلسلے میں اس کی صفات و کمالات کا ذکر ہوا۔ اللہ نے ان انعامات کا ذکر فرمایا جو اس نے نسل انسانی پر کیے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کا ذکر کیا “ واذ قال ربک للمئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ ” اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے تذکرہ کیا۔ کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے جواب میں کہا “ اتجعل فیھا من یفسد فیھا ” کیا تو زمین میں ایسی ہستی کو بنائے گا جو فساد کریگی اور خون بہائے گی۔ حالانکہ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں ۔ تیری حمد کے ساتھ۔ اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ انی اعلم مالا تعلمون ” یعنی بیشک میں جانتا ہوں ، جو تم نہیں جانتے۔ خلافت کے متعلق بھی پہلے بیان ہوچکا ہے۔ کہ خلافت نیا بت کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کو بطور خلیفہ پیدا فرمایا ہے۔ تاکہ وہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی نیابت کے فرائض انجام دے سکیں ، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر شرعی قانون انسان کے ذریعے نافذ فرمایا ہے۔ اور تکوینی احکام یعنی وہ احکام جو انسانوں سے متعلق نہیں ہیں وہ قدرت کے مقرر کردہ دوسرے کارندے انجام دیتے ہیں۔ تخلیق آدم پر فرشتوں کا گمان کرنا کہ یہ زمین پر فتنہ و فساد برپا کرے گا۔ اس کا بیان بھی ہوچکا۔ فرشتوں نے خیال کیا کہ خلیفہ کی ضرورت ہی ایسی جگہ پڑتی ہے۔ جہاں قتل و غارت اور خونریزی ہوگی۔ لہٰذا انہوں نے ایسا گمان کیا ۔ یا پھر یہ وجہ تھی کہ انہوں نے انسانوں کو جنوں پر قیاس کیا ۔ جو اس نسل سے پہلے اس زمین پر فتنہ و فساد برپا کرچکے تھے ۔ آدم (علیہ السلام) کو کن چیزوں کے نام سکھلائے گئے : آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے وقت اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے درمیان سوال و جواب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو سارے نام سکھا دیے۔ ان ناموں سے کیا مراد ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے کون سے نام آدم (علیہ السلام) کو سکھلائے۔ اس سلسلہ میں مفسرین کرام کے کئی اقوال ہیں۔ تفسیر ابو السعود اور مدارک عربی زبان کی چارچار جلدوں کی مختصر تفسیریں ہیں۔ ان کے مؤلفین حنفی امام تھے وہ اور بعض دیگر حضرات فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر مدارک ج 1 ص 41 وابو السعود ج 1 ص 69) کہ “ علم ادم الاسمآء ” سے مراد تمام انواع و اجناس کے نام ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے سکھائے۔ اس سے مراد ہر فرد کا نام سکھلانا نہیں۔ کیونکہ ہر ہر فرد اور جزو کا تعلق غیب سے ہے۔ اور اسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ اور کوئی نہیں جانتا۔ انواع و اجناس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے انسان ایک نوعی نام ہے۔ اس طرح اجناس میں سے حیوان ایک جنس ہے۔ اور پھر آگے اس کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً گھوڑے ، بھینس ، گائے ، بھیڑ بکریاں ، کیڑے مکوڑے وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کے نام آدم (علیہ السلام) کو سکھائے ۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ ابن کثیر ج 1 ص 73 ، تفسیر طبری ج 1 ص 216) کہ “ علم ادم الاسمآء ” سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد کے نام بتلا دیے۔ برخلاف اس کے شیخ ابن عربی (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ ) کہ اسماء سے مراد اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنی ہیں۔ نہ کہ بعض دوسری چیزوں کے نام۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں (3 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 21) کہ اسماء سے مراد جزیات ہیں ۔ مگر تمام کی تمام اور ہر قسم کی جزیات نہیں ۔ بلکہ صرف وہ جزیات مراد ہیں جن کی ضرورت تھی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رح) فرماتے ہیں (4 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 73) کہ صرف انسانی ضروریات کی تمام چیزوں کے نام بتلا دیے۔ جو چیزیں انسانی ضرورت سے باہر ہیں۔ ان کے بتانے کا نہ کوئی فائدہ تھا۔ اور نہ ہی وہ بتائیں۔ قرآن پاک میں اس کی مثال سورة نمل میں آتی ہے۔ کہ ملکہ سباکو “ واتیت من کل شیء ” ہر چیز دی گئی تھی۔ تو یہاں پر ہر چیز سے مراد اس کی سلطنت کی ضرورت ہی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔ کہ اس زمانے میں بلکہ سبا کے پاس فنٹیم طیارے اور راکٹ بھی موجود تھے۔ بلکہ ضرورت کی تمام اشیاء اسے میسر تھیں۔ تو یہاں پر بھی الاسمآء کلھا سے مراد انہی چیزوں کے نام ہیں جو انسانی ضروریات میں شامل ہیں۔ اسی طرح سورة نمل میں شہد کی مکھیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے “ ثم کلی من کل الثمرات ” پھر تمام پھلوں سے کھاؤ اور شہد پیدا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں ایک پاکیزہ چیز رکھ دی ہے۔ اور اس کے پیٹ میں ایک لطیف قسم کا مادہ پیدا کردیا ہے ۔ جس سے شہد بنتا ہے۔ تو یہاں پر تمام قسم کے پھل کھانے سے مراد یہ نہیں ہے کہ دنیا جہاں کا ہر اچھا ، برا ، کڑوا ، کیلا پھل کھائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس کی ضرورت اور رسائی کے مطابق جتنے پھل ہیں مکھی ان پر بیٹھتی ہے۔ اور پھر اس سے اللہ تعالیٰ شہد جیسی مفید چیز پیدا کرتا ہے۔ بادام اور اخروٹ وغیرہ ایسے پھل ہیں ۔ جن کے مغز تک رسائی ہی نہیں۔ تو ایسی چیزوں کے کھانے کا حکم اللہ تعالیٰ نے نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت اور شریعت میں یہ قانون رکھ دیا ہے۔ کہ وہ پاکیزہ چیزوں پر بیٹھتی ہے۔ گندی جگہ پر نہیں بیٹھتی ہے۔ مشاہدے سے معلوم ہوا ہے۔ کہ اگر شہد کی مکھی غلاظت والی جگہ پر بیٹھ جائے۔ اور اس کا پتہ چل جائے ۔ تو مکھیوں کی ملکہ کے پاس شکایت پیش ہوتی ہے۔ اور ایسی مکھی کو سزائے موت تک دے دی جاتی ہے۔ پھلوں میں بھی بعض کڑوے پھل ہوتے ہیں۔ مگر مکھی وہاں سے مادہ حاصل کرنے کی پابند نہیں ہے۔ اسی طرح بعض پھول بھی بدبودار ہوتے ہیں جو شہد کے لیے ناموافق ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہوتے وہ بھی پھول ہی ہیں ۔ پھر یہ بھی ہے کہ جس قسم کے پھل یا پھول سے مکھی رس چوسے گی۔ شہد کا ذائقہ بھی ویسا ہی ہوگا۔ مثلاً کھجور پر بیٹھے گی تو وہ ذائقہ حاصل کرے گی اور انگور کی شاخ پر جائے گی۔ تو دیسی مٹھاس حاصل کرے گی۔ مقصد یہ ہے کہ مکھی کے ہر پھل اور پھول چوسنے سے مراد صرف وہ پھل اور پھول ہیں۔ جو اس کی شہد کی ضرورت سے مناسبت رکھتے ہیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر بیضاوی ج 1 ص 45) “ وعلم ادم الاسمآء کلھا ” سے مراد انسانی ضرورت کی تمام چیزیں ہیں۔ ان میں غیر ضروری اشیاء کے نام مراد نہیں ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 73 ، تفسیر عزیزی فارسی ص 136 پارہ 1) ہانڈی چمچہ وغیرہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں۔ مگر چونکہ ان کا تعلق ضروریات انسانی سے ہے۔ لہٰذا ان کے نام آدم (علیہ السلام) کو بتا دیے گئے۔ امام ابوبکر جصاص (رح) اور بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں (3 ۔ تفسیر بیضاوی ج 1 ص 46 ، تفسیر روح المعانی ج 1 ص 224) ۔ کہ چیزوں کے نام سکھانا بالکل ایسا نہیں تھا جیسے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ ب ، بلی ، ط ، طوطا بلکہ نام سکھانے سے مرا د یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی طبیعت اور مزاج میں بطور صلاحیت ان چیزوں کے نام رکھ دیے تھے۔ اور پھر جب فرشتوں کے سامنے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تو آدم (علیہ السلام) نے تمام نام بتلا دیے۔ بعض مفسرین کی رائے یہ ہے (4 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 73 ، تفسیر کبیر ج 1 ص 176) کہ چیزوں کے نام بطور تعلیم سکھلائے گئے۔ جیسے کسی چیز کی وضاحت کی جاتی ہے۔ کہ یہ فلاں چیز ہے اس کی خاصیت یہ ہے ۔ اور اس کا فائدہ یہ ہے۔ وغیرہ وغیرہ “ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ”۔ ملائکہ کا امتحان : آدم (علیہ السلام) کو تمام ضروری اشیاء کے نام سکھلانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آزمایا چناچہ وہ تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کردیں “ ثم عرجحم علی الملئکۃ ” اور فرشتوں کو حکم دیا “ انبؤنی باسمآء ھولا ” مجھے ان تمام چیزوں کے نام بتاؤ “ ان کنتم صدقین ” اگر تم سچے ہو۔ یعنی اے فرشتو ! تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ انسانی مخلوق کے پیدا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ تم میری تسبیح و تقدیس بیان کرنے کے لیے کافی ہو۔ اور یہ مخلوق تو دنیا میں خونریزی کرے گا۔ مگر تم نہیں جانتے کہ انسان کون سے کمالات کا حامل ہوگا۔ منجملہ ان کے علم و فہم کا کمال سب سے اعلیٰ ہے۔ جو اسے دیا گیا ہے۔ اور خلیفہ کے لیے ان چیزوں کی ماہیت اور حقیقت کا جاننا بھی ضروری ہے۔ جن پر اس نے احکام کا نفاذ کرنا ہے۔ مثلاً اگر خلیفہ کو شراب کی خاصیت کا ہی علم نہ ہو کہ یہ کس طرح انسانی عقل کو ماؤف کرتی ہے۔ اور یہ کن نقصانات کی وجہ سے ام الخبائث کہلاتی ہے۔ تو خلیفہ شراب کے رسیا کو سزا کیسے دے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تمام ضروری چیزوں کے نام ، ان کی حقیقت اور ماہیت سے آدم (علیہ السلام) کو آگاہ کردیا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کی نیابت کا پورا پورا حق ادا کرسکے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ امتحان میں کامیاب نہ ہوسکے۔ “ قالوا سبحنک ” کہنے لگے اے مولا کریم ! تیری ذات پاک ہے “ لاعلم لنا الا ما علمتنا ” ہمیں اعتراف ہے کہ ہمیں ان چیزوں کے اسماء ان کی خاصیت اور ماہیت کا علم نہیں ہے۔ ہم اس معاملہ میں عاجز ہیں۔ ہمارا علم تو اسی قدر ہے جس قدر تو نے ہمیں سکھایا ہے۔ اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں جانتے۔ “ انک انت العلیم الحکیم ” بیشک تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ حجۃ اللہ البالغۃ ج 1 ص 19 ، 20) کہ احادیث میں آتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بتلا دیا تھا۔ کہ آدم میں بہیمیت اور ملکیت دونوں خواص ہوں گے مگر فرشتوں کی نگاہ صرف بہیمیت تک ہی پہنچی۔ آدم کی ملکیت تک نہ گئی۔ چناچہ اس کمال کو واضح کرنے کے لئے علمی صلاحیت پیش کی تب فرشتوں نے عاجزی کا اظہار کیا۔ کہ ہمارے پاس یہ کمال نہیں ہے۔ ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے عطا کیا۔ ہاں جس ہستی کے پاس علم و فہم کا یہ خزانہ ہوگا۔ خلافت کے لائق وہی ہوگی۔ اور وہی ہستی قانونِ خداوندی کو نافذ کرسکے گی۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک علم فرشتوں کو عطا ہی نہیں کیا تو ان کے امتحان کا کیا مطلب ؟ اگر آدم (علیہ السلام) کی طرح فرشتوں کو بھی وہ علم سکھلا دیا جاتا تو وہ بھی جواب دے دیتے۔ اس کے جواب میں مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر بیان القرآن ج 1 ص 18) ۔ کہ آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم فرشتوں کی موجودگی میں دی گئی تھی۔ فرق صرف یہ ہے۔ کہ آدم (علیہ السلام) کو ان چیزوں کی ضرورت تھی ۔ لہٰذا انہوں نے ان کے نام ذہن میں محفوظ کرلیے۔ مگر فرشتوں کو چونکہ ایسی چیزوں کی ضرورت ہی نہ تھی لہٰذا انہوں نے یہ نام ذین نشین رکھنے کی کوشش ہی نہ کی اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی استاد پوری کلاس کے سامنے لیکچر دے سبق کی پوری پوری وضاحت کردی۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ امتحان کے وقت بعض طالب علم ٹھیک ٹھیک جواب دیتے ہیں۔ مگر بعض کو کچھ یاد نہیں ہوتا۔ حالانکہ استاد نے سب کو بیک وقت ایک ہی لیکچر دیا تھا۔ یہی حال آدم (علیہ السلام) اور فرشتوں کا ہوا۔ آدم (علیہ السلام) نے حسب حال ہونے کی بناء پر ان چیزوں کے نام یاد کر لئے اور بوقت امتحان بتا دیے۔ مگر فرشتے اس سبق کو ضبط نہ کرسکے لہٰذا انہوں نے امتحان کے وقت عاجزی کا اظہار کردیا ۔ آدم (علیہ السلام) کی کامیابی : الغرض ! جب فرشتے اس امتحان میں ناکام ہوگئے۔ تو اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے۔ “ قال یادم انبئھم باسمآئھم ” فرمایا اے آدم ! ان کو ان چیزوں کے نام بتلا دے۔ چناچہ “ فلما انباھم باسمائھم ” جب آدم (علیہ السلام) نے ان کو ان چیزوں کے نام بتلا دیت کہ یہ ہنڈیا ہے اس میں سالن پکایا جاتا ہے۔ یہ توا ہے اس پر روٹی پکائی جاتی ہے ۔ یہ فلاں چیز ہے۔ یہ فلاں چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس قدر امتحانی سوال کیے۔ آدم (علیہ السلام) نے فرفر جواب دے دیے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا “ قال الم اقل لکم ” کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا “ انی اعلم غیب السموٹ والارض ” کہ میں آسمان و زمین کی پوشیدہ چیزوں کو جاننے والا ہوں۔ یہاں آسمان و زمین کے غیوب کا تعلق مخلوق کے اعتبار سے ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی کوئی چیز غائب ہے۔ اس کے لیے تو کوئی چیز بھی پس پردہ نہیں البتہ مخلوق کے لیے بعض چیزیں ظاہر ہوتی ہیں۔ اور بعض پوشیدہ ۔ دوسری جگہ ہے “ وما یعزب عن ربک من مثقال ذرۃ ” تیرے رب سے تو ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اس پر تو ہر چیز عیاں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ “ عالم الغیب والشھادۃ ” اس لیے بولا جاتا ہے کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ جو مخلوق کے اعتبار سے پوشیدہ ہے یا ظاہر ہے۔ یہاں پر بھی “ انی اعلم غیب السموت والارض ” کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو جانتا ہوں ، جو مخلوق یعنی انسان ، جن اور فرشتوں کے اعتبار سے خواہ پوشیدہ ہیں یا ظاہر ہیں۔ حتیٰ کہ آدم (علیہ السلام) کی صلاحیت اور ان کے کمال کو بھی جانتا ہوں۔ اے فرشتو ! تمہاری نظر تو آدم (علیہ السلام) کی بیمیت تک ہی پہنچی ہے اور اسی سے تم نے اندازہ لگا لی ہے کہ یہ فتنہ و فساد برپا کرے گا۔ اور خونریزی کا مرتکب ہوگا۔ یا تم نے جنات پر قیاس کرکے کہہ دیا ہے کہ آدم زمین میں لڑائی جھگڑے کا موجب بنے گا۔ تمہاری نظر اس کے کمال تک پہنچ جاتی تو یہ گمان نہ کرتے۔ ہوسکتا ہے کہ فرشتوں کے دل میں یہ بات آئی ہو کہ اے مولا کریم ! ہم تیری تسبیح و تقدیس بیان کرنے والے ہیں لہٰذا اگر زمین میں نیابت کی ضرورت ہے تو ہم حاضر ہیں ۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ہر اس چیز کو جانتا ہوں جس کو تم ظاہر کرتے ہو یا چھپاتے ہو۔ اے فرشتو ! شاید تمہارا خیال ہو کہ صلاحیت ہم میں پائی جاتی ہے۔ وہ آدم میں نہ پائی جاتی ہو۔ مگر یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ نے آدم میں وہ کمال رکھ دیا ہے جہاں تک تمہاری رسائی نہیں ہے۔ لہٰذا نیابت کا حقدار آدم (علیہ السلام) ہی ہے۔ اسی لیے فرمایا “ واعلم ما تبدون وما کنتم تکتمون ” اے فرشتو ! میں جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی برتری اور فضیلت کو عملی طور پر فرشتوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ چناچہ اگلی آیات میں فرشتوں کو سجدہ کے حکم کا بیان ہے۔
Top