Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 89
وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ
وَزَكَرِيَّآ : اور زکریا اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗ : اپنا رب رَبِّ : اے میرے رب لَا تَذَرْنِيْ : نہ چھوڑ مجھے فَرْدًا : اکیلا وَّاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور زکریا کو بھی یاد کرو کہ جب انہوں نے پکارا اپنے رب کو کہ اے میرے پروردگار مجھے لاوارث نہ رکھیو اور یوں سب سے اچھے اور حقیقی وارث تو آپ ہی ہیں
116 حضرت زکریا کی اپنے رب سے اولاد کی دعا : سو آپ نے اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ " مالک مجھے لاوارث نہیں رکھنا " پس مجھے صالح اور پاکیزہ اولاد عطا فرما کہ اولاد کی نعمت سے نوازنا بھی تیرا ہی کام اور تیری ہی شان ہے۔ اور جب حضرات انبیائے کرام ۔ علیہم الصلاۃ والسلام ۔ بھی اسی کے محتاج اور اسی کے در کے سوالی ہیں اور وہ بھی اپنے لیے اولاد کی نعمت اسی وحدہ لا شریک سے مانگتے اور اسی کے حضور دست دعا وسوال دراز کرتے ہیں تو پھر اور کون ہوسکتا ہے جو کسی کا حاجت روا و مشکل کشا ہو سکے ؟ اور اس کو اولاد کی نعمت سے سرفراز کرسکے ؟۔ سو کتنے گمراہ اور کس قدر بہکے بھٹکے ہوئے ہیں وہ لوگ جو اس قادر مطلق، مالک حقیقی کو چھوڑ کر جو کہ سب کا حاجت روا و مشکل کشا اور کارساز و کارفرما ہے دوسرے خود ساختہ اور فرضی و وہمی سہاروں کو ڈھونڈتے، من گھڑت سرکاروں کے گرد چکر لگاتے اور ان کے پھیرے مانتے ہیں۔ اور ان سے اولاد وغیرہ مانگتے ہیں۔ اور اس طرح وہ جگہ جگہ اور طرح طرح سے ذلیل و خوار ہوتے ہیں ؟ اور طرح طرح کی شرکیات سے آلودہ ہوتے اور اپنی متاع ایمان کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اولاد کی نعمت سے نوازنا اور ہر کسی کی اور ہر طرح کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کرنا اسی وحدہ لا شریک کی صفت و شان ہے۔ سب اسی کے محتاج اور اسی کے در کے سوالی ہیں یہاں تک کہ حضرات انبیاء و رسل کی مقدس ہستیاں بھی ۔ علیہم الصلاۃ والسلام ۔ اس لیے ہمیشہ اسی سے مانگنا اور اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔ وباللہ التوفیق -
Top