Tafseer-e-Madani - Al-Ghaafir : 44
فَسَتَذْكُرُوْنَ مَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ١ؕ وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ
فَسَتَذْكُرُوْنَ : سو تم جلد یاد کروگے مَآ اَقُوْلُ : جو میں کہتا ہوں لَكُمْ ۭ : تمہیں وَاُفَوِّضُ : اور میں سونپتا ہوں اَمْرِيْٓ : اپنا کام اِلَى اللّٰهِ ۭ : اللہ کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ : دیکھنے والا بندوں کو
پھر عنقریب وہ وقت بھی آئے گا جب کہ تمہیں (رہ رہ کر) وہ سب کچھ یاد آئے گا جو میں (آج) تم سے کہہ رہا ہوں اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں بلاشبہ وہ پوری طرح دیکھتا ہے اپنے بندوں (کے احوال) کو
90 ختام مسک کا ایک نمونہ و مظہر : سو اس مرد مومن نے ختام مسک کے نمونے کے طور پر اپنی تقریر کا خاتمہ اپنے اس درد بھرے اور انتہائی ناصحانہ اور ہمدردانہ جملے سے کیا کہ " عنقریب تم لوگ وہ سب کچھ یاد کرو گے جو میں آج تم سے کہہ رہا ہوں "۔ جب تم اپنے کئے کا بھگتان بھگتو گے مگر اس وقت کا یہ یاد آنا اور اپنے کیے پر بچھتانا تمہیں کچھ فائدہ نہیں دے گا کہ وہ وقت عمل کا نہیں، جزا و سزا کا ہوگا۔ اس لئے بےوقت کا وہ پچھتاوا تمہیں کچھ کام نہ آسکے گا ۔ { یَوْمَئِذٍ یَّتَذَکَّرُ الاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَہُ الذِّکْرٰی } ۔ (الفجر : 23) سو یہ اس مرد مومن کی اس ایمان افروز تقریر کا آخری اور نہایت ہمدردانہ فقرہ ہے جو اس نے غفلت میں ڈوبی ہوئی اس قوم کے ضمیروں کو جھنجھوڑتے ہوئے ان سے اپنے خطاب میں فرمایا۔ سو اس نے ان سے کہا کہ میری قوم کے لوگو، آج تم میری بات کو مانو یا نہ مانو تمہاری مرضی۔ لیکن آگے یقینا ایسے مراحل آئیں گے کہ تم رہ رہ کر میری ان باتوں کو یاد کرو گے اور افسوس کرو گے۔ مگر اس وقت کے یاد کرنے اور افسوس کرنے سے تم کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہوگا کہ اس کا وقت بیت چکا ہوگا۔ اور اس کا موقع تمہارے ہاتھ سے نکل چکا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر گامزن رکھے ۔ آمین۔ 91 تفویض الی اللہ کا درس عظیم : سو اس مرد مومن نے اپنے خطاب کے خاتمے پر تفویض الی اللہ سے کام لیتے ہوئے اور اپنی قوم کو اس کا درس دیتے ہوئے ان لوگوں سے کہا کہ " میں اپنا معاملہ اللہ ہی کے سپرد کرتا ہوں "۔ کہ اعتماد و بھروسے کے لائق اور سب کا حاجت روا و مشکل کشا بہرحال وہی اور صرف وہی وحدہ لاشریک ہے۔ جو اپنے بندوں کو اور ان کے حالات کو پوری طرح دیکھتا اور جانتا ہے۔ اور وہی سب کی حاجتیں پوری فرماتا، مشکلیں مصیبتیں دور کرتا اور ان کے کام بناتا ہے۔ پس بھروسہ و توکل ہمیشہ اور ہر حال میں اسی پر اور صرف اسی وحدہ لاشریک پر کرنا چاہیئے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ جاہل مسلمان اور ضعیف الاعتقاد انسان کا حال آج اس سے مختلف ہے۔ کہیں اس کا بھروسہ و اعتماد کسی تعویذ گنڈے پر ہے۔ کہیں کسی خود ساختہ اور نام نہاد " سرکار " پر۔ کہیں کسی ملنگ پر اور کہیں کسی فرضی امام ضامن پر۔ کہیں وہ کسی کو حاجت روائی ومشکل کشائی کے لئے بلاتا پکارتا ہے اور کہیں کسی کو۔ کہیں وہ کسی قبر کے پھیرے لگاتا اور چکر کاٹتا ہے۔ اور کہیں کسی قبر پر چادریں چڑھاتا اور دیگیں پکاتا، ڈالیاں پیش کرتا اور نذریں مانتا اور نیازیں دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور اس طرح وہ خود اپنے لئے گھاٹے اور خسارے کا سودا کرتا اور اپنی مشکلات اور پریشانیوں میں کمی کی بجائے اضافے کا سامان کرتا ہے۔ کیونکہ جو ذات اصل اور حقیقت میں حاجت روا و مشکل ہے اس کی طرف یہ رجوع کرتا نہیں۔ اور جدھر یہ دوڑتا ہے وہاں حقیقت میں کوئی حاجت روا سرے سے ہے ہی نہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ مِنْ کُلِّ شَائِبَۃِ الِشرْک والشِّرکیات ۔ بہرکیف اس مرد مومن نے ان لوگوں سے کہا کہ میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا۔ اب تم نے جو کچھ کرنا ہے کر دیکھو۔ تم لوگ اگر میرے اس کلمہ حق کو قبول کرنے اور اس کے آگے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے الٹا میرے دشمن بنتے اور میرے درپے آزار ہوتے ہو تو ہوتے رہو۔ میں نے تو اپنا معاملہ بہرحال اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے کردیا ہے۔ وہ یقینی طور پر اپنے بندوں کو پوری طرح دیکھتا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ میرا بھروسہ بس اسی پر ہے۔
Top