Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 113
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اَنْ : کہ يَّسْتَغْفِرُوْا : وہ بخشش چاہیں لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے وَلَوْ : خواہ كَانُوْٓا : وہ ہوں اُولِيْ قُرْبٰى : قرابت دار مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا تَبَيَّنَ : جب ظاہر ہوگیا لَھُمْ : ان پر اَنَّھُمْ : کہ وہ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : دوزخ والے
پیغمبر کو اور دوسرے اہل ایمان کو یہ روا نہیں کہ وہ بخشش کی دعاء کریں مشرکوں کے لئے اگرچہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، اس بات کے واضح ہوجانے کے بعد کہ وہ لوگ دوزخی ہیں،2
208 مشرکوں کے لیے بخشش کی دعاء مانگنے کی ممانعت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پیغمبر اور دوسرے اہل ایمان کو روا نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعاء کریں کہ مشرک اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ ان کے بخشش کی دعا کی جائے کہ شرک کا جرم دراصل بغاوت کا جرم ہے جو کہ ناقابل معافی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ صحیح بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق جب آنحضرت ﷺ کے چچا ابوطالب کے انتقال کا وقت آن پہنچا تو آپ اپنی عظیم الشان رحمت اور شفقت کی بناء ان کے پاس تشریف لے گئے اور اس کو کلمہ توحید پڑھنے اور دین حق کے قبول کرنے کی دعوت دی تاکہ وہ دوزخ کی آگ سے بچ سکے۔ تو اس موقع پر مشرکین مکہ کے سرداروں میں سے ابوجہل اور ابن ابی امیہ نے اس کو طعن وتشنیع کرتے ہوئے کہا کہ کیا تم مرتے وقت اپنے باپ دادا کے دین سے پھرنا چاہتے ہو ؟ تو اس نے آنحضرت ﷺ کی اس قدر خواہش اور کوشش کے باوجود دین حق کو قبول کرنے اور کلمہ توحید کا اقرار کرنے سے انکار کردیا۔ اور وہ کفرہی پر مر کر دوزخ کا مستحق ہوا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اسی لئے بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ اس نے دوزخ کی آگ کو تو اختیار کرلیا مگر عار کو برداشت نہ کیا " اختارالنار علی العار " پھر بھی نبی رحمت ﷺ نے اپنے وفور رحمت کی بناء پر فرمایا چچا اللہ کی قسم میں آپ کیلئے بخشش کی دعاء کرتا رہونگا یہاں تک کہ مجھے اس سے روک نہ دیا جائے ؟ " واللہ لاستغفرن لک مالم انہ عنہ " تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اس سے آپ ﷺ کو اس کے لئے دعائے بخشش سے روک دیا گیا۔ " صلوت اللہ وسلامہ علیہ " قول مشہور کے مطابق یہی قصہ اس آیت کریمہ کی شان نزول اور سبب ورود ہے۔ (روح، ابن جریر، ابن کثیر، مراغی، محاسن، جامع اور معارف وغیرہ وغیرہ) سو اس سے ایک تو یہ بات واضح اور محقق ہوگئی کہ کفر اور شرک پر مرنے والے کسی انسان کے لیے نہ تودعائے مغفرت کرنا کسی شخص کے لئے روا اور جائز ہوسکتا ہے اور نہ ہی کفر و شرک پر مرنے والے ایسے کسی شخص کو اس سے کسی طرح کا کوئی فاعدہ پہنچ سکتا ہے خواہ وہ دعاء حضرت امام الانبیاء ﷺ کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو ؟ نیز اس سے یہ امر بھی پوری طرح واضح ہوگیا کہ پیغمبر نہ تو عالم غیب ہوتے ہیں اور نہ ہی مختار کل، جیسا کہ دور حاضر کے کچھ اہل زیغ وضلال کا کہنا اور ماننا ہے۔ کیونکہ اگر ایسے ہوتا تو نہ آنحضرت ﷺ ایک ایسے شخص کے لئے جس کا انجام اس طرح طے اور مقرر ہوچکا تھا اس طرح دعاء فرماتے اور نہ ہی ابوطالب اس طرح دولت ایمان و یقین سے محرومی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوتا اور جب حضرت الانبیاء۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلیہم۔ کی شان عبدیت و بندگی کا یہ عالم ہے تو پھر اور کون ہوسکتا ہے جس کے بارے میں اس طرح کا کوئی عقیدہ رکھا جاس کے۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس قدر بہکے بھٹکے اور بگڑے ہوئے ہیں وہ لوگ جو قرآن وسنت پر ایمان و یقین کے دعو وں کے باوجود اور حضرت نبی اکرم ﷺ سے عشق و محبت کے اظہار کے باوصف اس طرح کے عقائدرکھتے ہیں کہ " ساڈا عبدالقادر قادر ہے۔ سانوں ہور کسے دی لوڑ نہیں " یعنی " ہمارا عبدالقادر قادر ہے اور ہمیں کسی اور کی کوئی ضرورت ہی نہیں "۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ والی المشتکی وہو اعلم بمایقولون ومایعتقدون ومایظنون۔ بہرکیف اس واقعہ سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر نہ عالم غیب ہوتے ہیں نہ مختار کل۔ بلکہ علم غیب کلی اور اختیارکلی اللہ وحدہ لاشریک ہی کی شان اور اسی کا اختصاص ہے سبحانہ وتعالیٰ
Top