Madarik-ut-Tanzil - Al-Insaan : 24
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًاۚ
فَاصْبِرْ : پس صبر کریں لِحُكْمِ : حکم کے لئے رَبِّكَ : اپنے رب کے وَلَا تُطِعْ : اور آپ کہا نہ مانیں مِنْهُمْ : ان میں سے اٰثِمًا : کسی گنہگار اَوْ كَفُوْرًا : یا ناشکرے کا
تو اپنے پروردگار کے حکم کے مطابق صبر کئے رہو اور ان لوگوں میں سے کسی بدعمل اور ناشکرے کا کہا نہ مانو
24 : فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ (آپ اپنے رب کے حکم کے مطابق صبر کیے رہیئے) کافر و گنہگار کے پیچھے نہ چلیں : وَ لَاتُطِعْ مِنْہُمْ (آپ ان میں سے کسی کے کہنے پر نہ آئیے) ھمؔ سے کفار مراد ہیں۔ اس بات سے اکتا کر کہ کامیابی میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اٰثِمًا (فاسق) جو گناہ کا مرتکب، اور آپ کو گناہ کی طرف دعوت دینے والا ہو۔ اَوْکَفُوْرًا (یا کافر) کفر کا مرتکب اور آپ کو کفر کی طرف بلانے والا ہو۔ کیونکہ وہ آپ کو اپنی معاونت کی طرف یا تو اس فعل کی شرط پر دعوت دیتے ہونگے جو گناہ ہے یا کفر یا گناہ نہیں اور نہ کفر۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہلی دو صورتوں کی مساعدت پر ممانعت کردی۔ نہ کہ تیسری۔ ایک قول گناہ گارؔ سے یہاں عتبہ مراد ہے کیونکہ وہ گناہوں اور فسوق کا رسیا تھا۔ اور کافر ؔ سے الولید مراد ہے۔ کیونکہ وہ کفر و انکار میں غلو کرنے والا تھا۔ قول ظاہر یہ ہے کہ ہر گناہ گار اور کافر مراد ہے۔ کہ ان میں سے کسی کی بھی بات نہ مانیں، جب ایک کی بات ماننے سے روکا تو دونوں کی بات تسلیم کرنے سے روکنا خود ہوگیا۔ اور الگ بھی ممانعت ہر ایک کے لئے ثابت ہوگئی۔ اور اگر یہ وائو کے ساتھ ہو تو پھر جائز ہے کہ ان میں سے ایک کی بات مانیں۔ کیونکہ وائو جمع کیلئے ہے پس دونوں کی اکٹھی اطاعت سے ممانعت ہوگی نہ کہ کسی ایک کی اطاعت سے۔ ایک قول یہ ہے اوؔ بمعنی ولا ہے۔ تقدیر کلام یہ ہے ولا تطع ٰاثما ولا کفورًا۔ نہ اطاعت کر گناہ گار کی اور نہ کافر کی۔
Top