Tadabbur-e-Quran - Al-Insaan : 24
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًاۚ
فَاصْبِرْ : پس صبر کریں لِحُكْمِ : حکم کے لئے رَبِّكَ : اپنے رب کے وَلَا تُطِعْ : اور آپ کہا نہ مانیں مِنْهُمْ : ان میں سے اٰثِمًا : کسی گنہگار اَوْ كَفُوْرًا : یا ناشکرے کا
تو صبر کے ساتھ اپنے رب کے فیصلہ کا انتظار کرو اور ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکرے کی بات کا دھیان نہ کرو
’فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْہُمْ اٰثِمًا أَوْ کَفُوْرًا‘۔ ’فَاصْبِرْ‘ کے بعد ’ل‘ کا صلہ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں یہ انتظار کے مضمون پر متضمن ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب یہ کتاب تم نے مانگ کر اپنے اوپر نہیں اتروائی ہے تو لوگوں کے اعتراضات و مطالبات سے تم کیوں پریشان ہو۔ تمہارے اوپر بلاغ کی ذمہ داری ہے وہ ادا کرتے رہو اور رب کے فیصلہ کا انتظار کرو۔ ان نابکاروں اور ناہنجاروں کی ذرا پروا نہ کرو جو مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کو وہ عذاب دکھا دیا جائے جس سے قرآن ان کو ڈرا رہا ہے۔ لفظ ’اطاعت‘ یہاں پروا کرنے کے معنی میں ہے۔ اس کی وضاحت اس کے محل میں ہو چکی ہے۔ آیت: ’کَلَّا لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ‘ (العلق ۹۶: ۱۹) میں بھی یہ اس معنی میں آیا ہے۔ ’آثم‘ اور ’کفور‘ کی تحقیق: ’اٰثِمًا أَوْ کَفُوْرًا‘۔ اوپر آیات ۳ میں ’شاکر‘ اور ’کفور‘ کے الفاظ گزر چکے ہیں۔ وہاں فرمایا ہے کہ ’إِنَّا ہَدَیْْنَاہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُوْرًا‘ (ہم نے انسان کو راہ دکھا دی ہے، چاہے وہ شکرگزار بنے یا ناشکرا)۔ یہاں ’شاکر‘ کے ضد کی حیثیت سے لفظ ’اٰثِم‘ آیا ہے۔ اس کی تحقیق اس کے محل میں گزر چکی ہے۔ یہ لفظ حقوق تلف کرنے والے کے لیے آتا ہے۔ حقوق دو طرح کے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد، حقوق العباد تلف کرنے والوں کے لیے معروف لفظ ’اٰثِم‘ ہے اور حقوق اللہ نہ ادا کرنے والے کے لیے معروف ’کفور‘ ہے۔ اگرچہ یہ دونوں صفتیں لازم و ملزوم سی ہیں، جو حقوق العباد کا منکر ہو گا وہ حقوق اللہ ادا کرنے والا بھی نہیں بن سکتا، تاہم اشخاص کے رجحانات و میلانات کے اعتبار سے یہ بیماری ان کے اندر ذرا مختلف شکلوں میں نمایاں ہوتی ہے۔ بعض کے اندر خست، بخالت اور طمع مال، قساوت قلب پیدا کر دیتی ہے جو ان کو نیکی کا دشمن بنا دیتی ہے۔ بعض کے اندار انانیت، خود پرستی اور استکبار پیدا ہو جاتا ہے جو ان کو حق کے آگے جھکنے نہیں دیتا۔ قریش کے اندر ان دونوں کرداروں کے نمونہ علی الترتیب ابولہب اور ابوجہل تھے۔ ان دونوں طرح کے کرداروں کو سامنے رکھ کر یہاں ’وَلَا تُطِعْ مِنْہُمْ اٰثِمًا أَوْ کَفُوْرًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس میں اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ تمہارے مخالفوں میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ یا تو وہ طمع دنیا کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں اس وجہ سے تمہارے دشمن ہیں یا ان کے سروں پر انانیت کا بھوت سوار ہے جو ان کو حق کے آگے جھکنے نہیں دے رہا ہے اور یہ دونوں ہی قسم کے لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی باتوں کو کوئی اہمیت دی جائے۔ ان کا مرض لا علاج ہے۔
Top