Madarik-ut-Tanzil - Al-Anfaal : 11
اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَؕ
اِذْ : جب يُغَشِّيْكُمُ : تمہیں ڈھانپ لیا (طاری کردی) النُّعَاسَ : اونگھ اَمَنَةً : تسکین مِّنْهُ : اس سے وَيُنَزِّلُ : اور اتارا اس نے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی لِّيُطَهِّرَكُمْ : تاکہ پاک کردے تمہیں بِهٖ : اس سے وَيُذْهِبَ : اور دور کردے عَنْكُمْ : تم سے رِجْزَ : پلیدی (ناپاکی) الشَّيْطٰنِ : شیطان وَلِيَرْبِطَ : اور تاکہ باندھ دے (مضبوط کردے) عَلٰي : پر قُلُوْبِكُمْ : تمارے دل وَيُثَبِّتَ : اور جمادے بِهِ : اس سے الْاَقْدَامَ : قدم
جب اس نے (تمہاری) تسکین کے لئے اپنی طرف سے تمہیں نیند (کی چادر) اڑھا دی اور تم پر آسمان سے پانی برسا دیا تاکہ تم کو اس سے (نہلا کر) پاک کر دے اور شیطانی نجاست کو تم سے دور کر دے۔ اور اس لئے بھی کہ تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے پاؤں جمائے رکھے۔
غلبہ ٔ اونگھ : آیت 11: اِذْ یُغَشِّیْکُمُ (یاد کرو جب اللہ تعالیٰ تم پر طاری کر رہا تھا) : یہ اذیعدکم سے دوسرابدل ہے۔ نمبر 2۔ النصر کی وجہ سے منصوب ہے۔ نمبر 3۔ اذکر مضمر مان کر منصوب ہے۔ قراءت : مدنی نے یغشیکُمْ پڑھا ہے۔ النُّعَاسَ (اونگھ) نیند۔ دونوں قراءتوں کے مطابق فاعل اللہ ہی ہے۔ مکی اور ابو عمرو نے یغشاکم النعاسُپڑھا ہے۔ اَمَنَۃً (چین دینے کیلئے) نمبر 1۔ یہ مفعول لہ ٗہے۔ جب تم امن کیلئے اونگھ رہے تھے۔ ای لامنکم، نمبر 2۔ مصدر ہے پس تم امن میں ہوگئے امن میں ہونا۔ نیند سے رعب چلا جاتا ہے اور نفس کو آرام ملتا ہے۔ مِّنْہُ (اپنی طرف سے) یہ امنۃ کی صفت ہے یعنی امنۃ حاصلۃ لکم وہ امن جو تمہیں اللہ کی طرف سے حاصل ہونے والا تھا۔ نزول کی مطر : وَیُنَزِّلُ (اور برسا رہا تھا) تمام قراء نے تشدید سے پڑھا جبکہ مکی و بصری نے یُنْزِلُ تخفیف سے پڑھا ہے۔ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَآ ئً (تم پر آسمان سے پانی) بارش لِّیُطَھِّرَ کُمْ بِہٖ (تاکہ اس پانی سے تم کو پاک کر دے) پانی کے ذریعہ حدث اور جنابت سے وَ یُذْھِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ (اور تم سے شیطان کے وسوسہ کو دور کر دے) نمبر 1۔ ان کی طرف جو وسوسہ ڈالتا اور پیاس سے ڈراتا ہے۔ نمبر 2۔ احتلام کے ذریعے جنابت سے کیونکہ احتلام شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اور ان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا کیا کہ جنابت کی حالت میں مدد نہیں ہے۔ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ (اور تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے) صبر کے ذریعہ وَیُثَبِّتَ بِہِ الْاَقْدَامَ (اور تمہارے پائوں جمادے) پانی کے ساتھ مسلمانوں کے قدم ریت میں دھنس دھنس جاتے تھے۔ نمبر 2۔ ربط کے ذریعہ کیونکہ جب دل میں صبر پختہ ہوجائے تو لڑائی میں قدم خود مضبوط ہوجاتا ہے۔
Top