Tafheem-ul-Quran - Al-Anfaal : 11
اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَؕ
اِذْ : جب يُغَشِّيْكُمُ : تمہیں ڈھانپ لیا (طاری کردی) النُّعَاسَ : اونگھ اَمَنَةً : تسکین مِّنْهُ : اس سے وَيُنَزِّلُ : اور اتارا اس نے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی لِّيُطَهِّرَكُمْ : تاکہ پاک کردے تمہیں بِهٖ : اس سے وَيُذْهِبَ : اور دور کردے عَنْكُمْ : تم سے رِجْزَ : پلیدی (ناپاکی) الشَّيْطٰنِ : شیطان وَلِيَرْبِطَ : اور تاکہ باندھ دے (مضبوط کردے) عَلٰي : پر قُلُوْبِكُمْ : تمارے دل وَيُثَبِّتَ : اور جمادے بِهِ : اس سے الْاَقْدَامَ : قدم
اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا،8 اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دُور کرے اور تمہاری ہمّت بندھائے اور اس کے ذریعہ سے تمہارے قدم جمادے۔9
سورة الْاَنْفَال 8 یہی تجربہ مسلمانوں کو احد کی جنگ میں پیش آیا جیسا کہ سورة آل عمران آیت 154 میں گزر چکا ہے۔ اور دونوں مواقع پر وجہ وہی ایک تھی کہ جو موقع شدت خوف اور گھبراہٹ کا تھا اس وقت اللہ نے مسلمانوں کے دلوں کو ایسے اطمینان سے بھر دیا کہ ان پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ سورة الْاَنْفَال 9 یہ اس رات کا واقعہ ہے جس کی صبح کو بدر کی لڑائی پیش آئی۔ اس بارش کے تین فائدے ہوئے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کو پانی کا کافی مقدار مل گئی اور انہوں نے فوراً حوض بنا بنا کر بارش کا پانی روک لیا۔ دوسرے یہ کہ مسلمان چونکہ وادی کے بالائی حصے پر تھے اس لیے بارش کی وجہ سے ریت جم گئی اور زمین اتنی مضبوط ہوگئی کہ قدم اچھی طرح جم سکیں اور نقل و حرکت بآسانی ہو سکے۔ تیسرے یہ کہ لشکر کفار نشیب کی جانب تھا اس لیے وہاں اس بارش کی بدولت کیچڑ ہوگئی اور پاؤں دھنسنے لگے۔ شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست سے مراد وہ ہراس اور گھبراہٹ کی کیفیت تھی جس میں مسلمان ابتداءً مبتلا تھے۔
Top