Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 11
اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَؕ
اِذْ : جب يُغَشِّيْكُمُ : تمہیں ڈھانپ لیا (طاری کردی) النُّعَاسَ : اونگھ اَمَنَةً : تسکین مِّنْهُ : اس سے وَيُنَزِّلُ : اور اتارا اس نے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی لِّيُطَهِّرَكُمْ : تاکہ پاک کردے تمہیں بِهٖ : اس سے وَيُذْهِبَ : اور دور کردے عَنْكُمْ : تم سے رِجْزَ : پلیدی (ناپاکی) الشَّيْطٰنِ : شیطان وَلِيَرْبِطَ : اور تاکہ باندھ دے (مضبوط کردے) عَلٰي : پر قُلُوْبِكُمْ : تمارے دل وَيُثَبِّتَ : اور جمادے بِهِ : اس سے الْاَقْدَامَ : قدم
یاد کرو جب کہ وہ تم کو چین دینے کے لیے اپنی طرف سے تم پر نیند طاری کردیتا ہے اور تم پر آسمان سے پانی برسا دیتا ہے تاکہ اس سے تم کو پاکیزگی بخشے اور تم سے شیطان کے وسوسے دفع کرے اور تاکہ اس سے تمہارے دلوں کو مضبوط کرے اور قدموں کو جمائے۔
اِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لِّيُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطٰنِ وَلِيَرْبِطَ عَلٰي قُلُوْبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَ۔ یہ اس جنگ کے سلسلہ کی دوسری تائید الٰہی کا بیان ہے اور ذکر اس شب کا ہے جس کی صبح کو جنگ واقع ہوئی۔ تصویر حال کے مقصد سے صیغہ مضارع کا استعمال ہوا ہے جس کا استعمال تصویر حال کے لیے معروف ہے۔ فرمایا کہ یہ بات بھی خاص اللہ کی طرف سے ہوئی کہ شب میں اس نے تم پر نیند طاری کردی کہ تمہارے اعصاب و دماغ کو سکون مل گیا اور تم کو صبح کو جنگ کے لیے چاق و چوبد ہوگئے۔ اس نیند کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اس لیے کہ عین میدان جنگ میں ان لوگوں کا جن کی مٹھی بھر جماعت کو صبح ایک دل با دل فوج سے لڑنا ہے تھوڑا سا سولینا بھی فی الواقع خدا کی تائید ہی کا مظہر ہے۔ نیند تو تھوڑی سی پریشانی سے بھی اچاٹ ہوجاتی ہے چہ جائیکہ ایک ایسی پریشانی میں جیسی کہ اس موقع پر مسلمانوں کو لاحق رہی ہوگی لیکن جس کو خدا کی طمانیت بخشیوں کی تھپکیاں حاصل ہوں وہ تختہ دار پر بھی سو سکتے ہیں۔ چناچہ شب میں مسلمان سو لیے اور اس سے ان کے اعصاب اور دل و دماغ کو اتنا سکون حاصل ہوگیا کہ وہ جنگ کے لیے تازہ دم ہوگئے۔ سورة آل عمران کی آیت 154 کے تحت ہم لکھ آئے ہیں کہ میدانِ جنگ میں فوج کے لیے سو لینے کا موقع مل جانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کا اصل ؛ ی انحصار دل و دماغ کی حالت پر ہے اور یہ چیز ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی، انہی ہی کو حاصل ہوتی ہے جن پر خدائے مقلب القلوب اپنے فضل خاص سے یہ سکینت طاری کردے۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ : عام طور پر لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ اونگھ کی یہ حالت مسلمانوں پر عین اس وقت طاری ہوئی جب زور و شور کا معرکہ گرم تھا اور حالت یہ ہوئی کہ لوگوں کے ہاتھوں سے تلواریں چھوٹ کر گری پڑتی تھیں۔ لیکن یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آتی۔ اول تو یہی بات بڑی عجیب سی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی حالت کو اپنے انعام کے طور پر گنائے جس کا فائدہ سر تا سر کفار کے حق میں جاتا ہے۔ ان کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا تائید ہوسکتی تھی کہ مسلما عین لڑائی کے وقت اونگھنے لگ جائیں خواہ وہ کتنے ہی قلیل وقت کے لیے ہو۔ دوسرے یہ بات قرآن کے صریح الفاظ کے بھی بالکل خلاف ہے۔ اس طرح کی نیند کا ذکر قرآن میں دو جگہ آیا ہے۔ ایک آلِ عمران آیت 154 میں، دوسرے یہاں، آل عمران کے الفاظ یہ ہیں، ثم انزل علیکم من بعد الغم امنۃ نعاسا یغشی طائفۃ منکم وطائفۃ قد اھمتہم انفسہم، (پھر اللہ نے تم پر غم کے بعد سکون اتارا یعنی نیند جس نے تم میں سے ایک گروہ کو ڈھانک لیا اور ایک گروہ کو اپنی جانوں کی پڑی رہی) اس آیت میں ظاہر ہے کہ غم سے وہی غم مراد ہے جو مسلمانوں کو احد کی شکست سے پیش آیا تو جب نیند کے اتارے جانے کا واقعہ اس غم کے پیش آنے کے بعد پیش آیا تو اس کا تعلق وقت جنگ سے کیسے ہوسکتا ہے، یہ تو لازما جنگ کے ختم ہوجانے کے بعد ہی کا واقعہ ہوسکتا ہے۔ اس نیند کے موقع اور اس کی اہمیت کی تفصیل ہم آل عمران کی تفسیر میں کرچکے ہیں۔ انفال کی زیر بحث آیت میں اس نیند کا ذکر ان تائیدات کے بیان کے ذیل میں ہوا ہے جو بالفعل جنگ شروع ہونے سے پہلے ظہور میں آئی ہیں۔ اس کے اوپر آپ نے دیکھا کہ فرشتوں کی فوج اتارے جانے کی بشارت کا حوالہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بشارت جنگ سے پہلے دی گئی ہے۔ بعد کی آیت میں بارش کے نزول کا ذکر ہے، ہر شخص جانتا ہے کہ یہ واقعہ بھی جنگ سے پہلے ہوا ہے، پھر ان دونوں کے بیچ میں ایک ایسی بات کیسے آسکتی ہے جس کا تعلق معرکہ کارزار سے ہو ؟ قرآن نے اپنی ترتیب بیان ہی سے واقعہ کا موقع و محل نہایت خوبی سے واضح کردیا ہے لیکن آفت یہ ہے کہ لوگ قرآن پر غور ہی نہیں کرتے۔ ممکن ہے یہاں کسی کو یہ شبہ پیدا ہو کہ قرآن نے یہاں نعاس کا لفظ استعمال کیا ہے جو عربی میں ابتدائی نیند یعنی اونگھ اور جھپکی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر مقصود اطمینان کی نیند کا بیان کرنا ہوتا تو نوم یا اس کے ہم معنی کوئی لفظ استعمال ہوتا۔ ہمارے نزدیک یہ شبہ کچھ وزن نہیں رکھتا۔ اول تو یہ خیال کیجیے کہ شدید پریشانی میں آدمی جس چیز سے محروم ہوجاتا ہے وہ ابتدائی نیند ہی ہے، وہ اگر کسی طرح آجائے اور ذرا آنکھ لگ جائے تو آدمی کچھ سو ہی لیتا ہے۔ خدا نے اپنے فضل خاص سے یہہ چیز مسلمانوں پر اڑھا دی۔ جیسا کہ یغشیکم کے لفط سے عیاں ہے اسی وجہ سے مسلمان سو لیے۔ دوسری بات یہ کہ سفر یا میدان جنگ میں گھوڑے بیچ کر اور مردوں سے شرط باندھ کر تو کوئی ذی ہوش بھی نہیں سوتا۔ جو بھی سوتا ہے وہ جھپکی والی نیند ہی سوتا ہے۔ اس وجہ سے ہمارے نزدیک قرآن نے یہ لفظ نہایت برمحل اور بلیغ استعمال کیا ہے۔ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لِّيُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطٰنِ۔ یہ تیسری تائید الٰہی کا حوالہ ہے کہ عین موقع پر اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسمان سے پانی برسا دیتا ہے۔ یہاں من السماء کے الفاظ بڑے بامعنی ہیں۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار نے پہلے پہنچ کر پانی کے چشمہ پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس وجہ سے پانی کے باب میں مسلمانوں کو بڑی تشویش تھی۔ اللہ تعالیٰ نے من السماء کے الفاظ سے گویا اپنے اس التفات خاص کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلائی کہ کفار نے جب تمہیں زمین کے پانی سے محروم کرنے کی تدبیر کی تو وہ تمہاری کچھ نہ بگاڑ سکے۔ تمہارے رب نے تمہارے لیے آسمان سے پانی بھیج دیا۔ لِّيُطَهِّرَكُمْ میں پانی کا جو فائدہ بتایا ہے اس سے صحابہ کے ذوق و رجحان پر روشنی پڑتی ہے کہ ایمان و اسلام نے ان کے اقدار اور پیمانے کس قدر بدل دیے تھے۔ پانی کا یہ فائدہ کہ پیا جاتا ہے۔ ہر آدمی کو معلوم ہے بلکہ بیل اور گدھے بھی اس سے واقف ہیں۔ مومن کی نگاہ میں پانی کا اصلی فائدہ اور اس کی حقیقی قدر و قیمت اس بات میں ہے کہ وہ پاکیزگی اور طہارت کا ذریعہ اور شیطانی وسوسوں کے دور کرنے کا واسطہ ہے اور یہ چیز اللہ کو بہت محبوب ہے۔ صحابہ نے اس موقع پر پانی کے مسئلہ پر غور کیا ہوگا تو ان کے سامنے پینے کی ضرورت سے زیادہ اہمیت کے ساتھ یہ بات آئی ہوگی کہ وضو کیسے ہوگا، طہارت کے لیے کیا بنے گا، غسل کی ضرورت پیش آئی تو کیا صورت ہوگی ؟ ان کی اس مخصوص پریشانی کی وجہ سے، جو ان کی جوش ایمان کا مظہر تھی، اللہ تعالیٰ نے پانی کی ان روحانی برکات کا خاص طور پر ذکر فرمایا اور اس کے عام حیوانی فوائد سے صرف نظر فرمایا کہ وہ تو سبھی کے علم میں ہیں۔ رِجْزَ الشَّيْطٰنِ سے مراد شیطانی وساوس ہیں۔ اس کے ذکر کا بھی ایک خاص محل ہے۔ آدمی جب ناپاکی کی حالت میں ہو تو جس طرح گندی چیزوں پر مکھیوں کا زیادہ ہجوم ہوتا ہے، اسی طرح گندگی کی حالت میں شیطانی وساوس کا بھی آدمی پر زیادہ غلبہ ہوتا ہے۔ یہ حقیقت بعض احادیث میں بھی بیان ہوئی ہے۔ علاوہ بریں یہ بات بھی ہے کہ اگر پانی جیسی ناگزیر شے کی نایابی کا سوال پیدا ہوجائے اور وہ بھی عین جنگ کی حالت میں تو شیطان اس کی آڑ میں ایسی بد دلی اور مایوسی پھیلا سکتا ہے کہ بہتوں کا ایمان متزلزل ہوجائے۔ وَلِيَرْبِطَ عَلٰي قُلُوْبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَ۔ ربط اللہ علی قلبہ، قواہ و صبرہ، خدا نے اس کے دل کو مضبوط کردیا، اس کو اثبات قلب بخشا، اس کو تھام لیا۔ عام طور پر لوگوں نے اس اثباتِ قلب اور ثبات قدم کو بھی مذکورہ بارش ہی کے تحت شمار کیا اور اس پہلو سے اس ٹکڑے کی تاویل کی ہے لیکن میرا رجحان یہ ہے کہ یہ اس نیند کے فوائد کی تفصیل ہے جس کا اوپر ذکر ہے۔ میرے رجحان کے وجوہ حسب ذیل ہیں۔ اول یہ کہ لیربط میں ل کا اعادہ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ بعینہ لیطہرکم بہ و یذھب عنکم رجز الشیطان کے تحت نہیں ہے۔ ایسا ہوتا تو بغیر اعادہ ل کے آتا جس طرح ویذھب ہے۔ فصیح عربی میں اسلوب بیان یہی ہے۔ کلام عرب اور قرآن نظائر سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس کتاب میں اس کی ایک سے زیادہ مثالیں گزر چکی ہیں۔ بقرہ میں ہے۔“ یرید اللہ بک الیسر ولا یرید بکم العسر ولتکملوا العدۃ ولتکبروا اللہ علی ما ھداکم ولعلکم تشکرون : اور اللہ تہارے لیے سہولت چاہتا ہے، تنگی نہیں چاہتا اور تاکہ تم تعداد پوی کرو اور تاکہ تم اس ہدایت پر جو اس نے تم کو بخشی ہے اس کی بڑائی کرو اور تاکہ تم شکر گزار رہو ”(بقرہ : 185)۔ ہم نے اس آیت کے تحت وضاحت کی ہے کہ یہ اوپر کے بیان کردہ احکام کی الگ الگ علتیں واضح کی گئی ہیں اس وجہ سے ہر ایک کے ساتھ ل کا اعادہ کیا گیا اور ترتیب بیان نزولی نہیں بلکہ صعودی ہے یعنی نیچے سے اوپر کو چڑھتے ہوئے ایک ایک حکم کی غایت واجح کی گئی ہے۔ بالکل اسی اصول پر یہاں بھی ترتیب صعودی ہے۔ پانی کا ذکر سب سے آخر میں ہے۔ پہلے اس کا فائدہ بیان کیا گیا ہے، پھر نیند کا فائدہ بیان ہوا جس کا ذکر اوپر تھا اور ‘ ل ’ کا اعادہ کر کے یہ اشارہ فرما دیا کہ اس کا تعلق قریبی شے سے نہیں ہے بلکہ دوسری چیز سے ہے۔ دوم یہ کہ ثبات قلب، سکون دماغ اور ثابت قدم کا واضح تعلق نیند ہی سے ہے اسی وجہ سے قرآن نے اس کو امنۃ سے تعبیر فرمایا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر رات بےخوابی اور پریشانی میں گزری ہو تو دماغ اڑا اڑا پھرتا ہے، دل پراگندہ اور پریشان رہتا ہے۔ آدمی قدم رکھتا کہیں ہے، پڑتے کہیں ہیں۔ ایسی ذہنی اور قلبی پریشانی میں آدمی کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی سلیقہ سے نہیں کرپاتا چہ جائیکہ دشمن سے مقابلہ اور وہ بھی اس دور کی جنگ میں جس میں کامیابی کا انحصار مشینوں کی قوت پر نہیں بکہ لڑنے والوں کے اپنے اعصاب کی چشتی اور قوت پر تھا۔ یہ بات بھی یہاں ملحوظ رہے کہ متعد عرب شعرا نے اپنے جنگ کارناموں کی تفصیل کرتے ہوئے۔ یہ بات بیان کی ہے کہ ہم نے رات میں اپنے دشمن کو سونے نہیں دیا جس کے سبب سے صبح کو ان کے دل ایسے اڑے ہوئے تھے کہ ہمارے سامنے ان کے قدم نہ جم سکے۔
Top