Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 11
اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَؕ
اِذْ : جب يُغَشِّيْكُمُ : تمہیں ڈھانپ لیا (طاری کردی) النُّعَاسَ : اونگھ اَمَنَةً : تسکین مِّنْهُ : اس سے وَيُنَزِّلُ : اور اتارا اس نے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی لِّيُطَهِّرَكُمْ : تاکہ پاک کردے تمہیں بِهٖ : اس سے وَيُذْهِبَ : اور دور کردے عَنْكُمْ : تم سے رِجْزَ : پلیدی (ناپاکی) الشَّيْطٰنِ : شیطان وَلِيَرْبِطَ : اور تاکہ باندھ دے (مضبوط کردے) عَلٰي : پر قُلُوْبِكُمْ : تمارے دل وَيُثَبِّتَ : اور جمادے بِهِ : اس سے الْاَقْدَامَ : قدم
جب اس نے (تمہاری) تسکین کے لئے اپنی طرف سے تمہیں نیند (کی چادر) اڑھا دی اور تم پر آسمان سے پانی برسا دیا تاکہ تم کو اس سے (نہلا کر) پاک کر دے اور شیطانی نجاست کو تم سے دور کر دے۔ اور اس لئے بھی کہ تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے پاؤں جمائے رکھے۔
آیت نمبر : 11 قولہ تعالیٰ : آیت : اذیغشیکم النعاس اس میں دو مفعول ہیں۔ اور یہ اہل مدینہ کی قراءت ہے اور یہی اچھی ہے، کیونکہ اس میں فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اس کا ذکر پہلے آیت : وما النصر الا من عند اللہ ( آل عمران : 126) کے تحت گزر چکا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ اس کے بعد آیت : وینزل علیکم ہے اور اس میں فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ پس اس طرح اغشاء کی نسبت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے گی تاکہ کلام باہم متوافق اور متشاکل ہوجائے۔ ابن کثیر اور ابو عمرو نے یغشاکم النعاس پڑھا ہے یعنی فعل کی نسبت نعاس کی طرف کی ہے۔ اس کی دلیل آیت : امنۃ نعاسا یغشی ( آل عمران : 154) ہے اس کی قراءت کے مطابق جس نے یا یا تا کے ساتھ قراءت کی ہے۔ پس انہوں نے فعل کی اجافت نعاس کی طرف کی ہے یا امنتۃ کی طرف۔ اور الامنۃ ھی نعاس ( غنودگی) ہے، پس یہ خبر دی کہ غنودگی وہی ہے جو حق کو ڈھانپ لیتی ہے اور باقیوں نے یغشیکم غین کے یا کے ضمہ فتحہ اور شین کی شد کے ساتھ قراءت کی ہے اور النعاس حضرت نافع کی قراءت کے مطابق نصب کے ساتھ ہے، دو لغتیں غشی اور اغشی کے معنی کے مطابق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا آیت : فاغشینھم (یاسین : 9) اور میزید فرمایا : آیت : فغشھا ما غشی (النجم) اور میز ید فرمایا : آیت : کا نما اغشیت وجوھم (یونس : 27) مکی نے کہا ہے : پسندیدہ قراءت یا کے ضمہ، تشدید اور نعاس کی نصب ہے، کیونکہ اس کے بعد امنۃ منہ ہے اور منہ میں باء ضمیر اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، پس وہی وہ ہے جو لوگوں کو غنودگی کے ساتھ ڈھانپ دیتا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ اکثر قراء اسی پر ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ امنۃ من العدو ہے ( یعنی با ضمیر کا مرجع عدو ہیں) اور امنۃ مفعول من اجلہ ہے یا مصدر ہے، کہا جاتا ہے : امن امنۃ وامناوامانا یہ سب برابر ہیں۔ اور نعاس (غنودگی اور نیند) اس امن والے کی حالت ہے جسے کوئی خوف نہیں ہوتا۔ اور یہ غنودگی اس رات میں طاری ہوئی جس کی صبح کو جنگ تھی، پس یہ نیند بھی عجیب تھی کہ اس کے باوجود کہ ان کے سامنے ایک اہم ترین اور مشکل میں ڈال دینے والا امر تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو مربوط اور پر سکون کردیا۔ حضرت علی ؓ سے روایب ہے انہوں نے کہا : ہم میں حضرت مقدار ؓ کے سوا بدر کے دن کوئی گھوڑ سوار نہ تھا، وہ ابلق گھوڑے پر سوار تھے اور میں نے دیکھا کہ ہم میں رسول اللہ ﷺ کے سوا ہر کوئی سو رہا ہے، آپ ﷺ درخت کے نیچے نماز پڑھتے رہے اور روتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی، اسے بیہقی نے ذکر کیا ہے۔ ماوری (تفسیر ماوردی، صفحہ 299) نے کہا ہے : اس رات نیند کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے انہیں راحت و سکون پہنچانے کی دو وجہ تھیں : ان میں ایک یہ تھی کہ انہیں صبح کی جنگ کے لیے راحت اور سکون پہنچا کر طاقتور اور قوی بنانا تھا۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کے دلوں سے رعب زائل کر کے انہیں امن اور سکون پہنچانا تھا، جیسے کہا جاتا ہے : امن سلا دیتا ہے اور خوف جگا دیتا ہے۔ الامن منیم والخوف مسھر اور یہ بھی کہا گیا ہے : اللہ کریم نے انہیں دو لشکروں کے ملنے کی حالت میں ( مراد حالت جنگ) انہیں ڈھانپ دیا۔ اور اس کی مثل گفتگو غزوہ احد کے بیان میں سورة آل عمران میں گزر چکی ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : وینزل علیکم من السماء ماء لیطھرکم بہ ویذھب عنکم رجز الشیطن ولیربط علی قلوبکم ویثبت بہ الاقدام ظاہر قرآن اس پر دلالت کرتا ہے کہ غنودگی بارش سے پہلے طاری ہوئی۔ اور ابن ابی نجیح نے کہا ہے : بارش نیند سے پہلے ہوئی۔ زجاج نے بیان کیا ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 500) کہ کفار بدر کے دن مومنین سے پہلے بدر کے پانی کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے وہیں پڑاؤ ڈالا۔ اور مومنین اس حال میں باقی رہ گئے کہ ان کے لیے کوئی پانی نہ تھا، پس ان کے نفوس گھبرا گئے اور وہ پیاس محسوس کرنے لگے اور جنبی ہوئے اور وہ اسی طرح نمازیں پڑھنے لگے۔ تو بعض نے اپنے دلوں میں شیطان کے وسوسے ڈالنے کے سبب کہا : ہم گمان کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور ہم میں اس کے رسول ﷺ موجود ہیں اور ہماری حالت یہ ہے اور مشرکین پانی پر قابض ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے سترہ رمضان المابرک غزوہ بدر کی رات اتنی بارش برسائی یہاں تک کہ وادیاں بھر کر بہنے لگئٰں۔ اور انہوں نے جی بھر کر پانی پیا، غسل اور طہارت کا اہتمام کیا اور اپنے اونٹوں کو خوب سیراب کیا۔ اور ان کے اور مشرکین کے درمیان جو ریت اور دلدل تھی وہ خوب جم گئی، یہاں تک کہ جنگ کے وقت اس میں مسلمانوں کے پاؤں خوب جمے رہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک یہ احوال ان کے بدر پہنچنے سے پہلے تھے۔ اور یہی اصح ہے۔ اور یہی وہ ہے جسے ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں اور دوسروں نے بھی ذکر کیا ہے۔ اور یہ اس کا خلاصہ ہے : حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا : جب رسول اللہ ﷺ کو ابو سفیان کے بارے خبر دی گئی کہ وہ شام سے آرہا ہے آپ ﷺ نے مسلمانوں کو ان کی طرف ابھارا اور فرمایا :” یہ قریش کا قافلہ ہے اس میں وافر اموال ہیں پس تم ان کی طرف نکلو شاید اللہ تعالیٰ یہ اموال تمہیں بطور غنیمت عطا فرما دے “۔ حضرت ابن عباس رضٰی اللہ عنہما فرماتے ہیں : پس آپ ﷺ کے ساتھ ایک تھوڑی سی جماعت اٹھی اور قوم نے بوجھ محسوس کیا اور نکلنا ناپسند کیا اور رسول اللہ ﷺ نے بہت تیزی کی آپ ﷺ نہ اس کی طرف متوجہ ہوئے جس نے کوئی عذر پیش کیا اور نہ اس کا انتظار کیا جس کا اونٹ غائب تھا، پس آپ ﷺ مہاجرین وانصار میں سے تین سو تیرہ اصحاب کو ساتھ لے کر چل پڑھ۔ اور بخاری میں حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا : بدر کے دن مہاجرین کی تعداد اسی سے کچھ زائد تھی۔ اور انصار کی تعداد دو سو چالیس سے کچھ اوپر تھی۔ اور امام بخاری (رح) نے آپ ہی سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ہم گفتگو کرتے تھے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کے اصھاب کی تعداد تین سو دس سے کچھ زائد تھی اور یہ طالوت کے ان ساتھیوں کی تعداد کے برابر تھی جنہوں نے اس کے ساتھ دریا عبور کرلیا تھا اور اس کے ساتھ سوائے مومن کے کسی نے عبور نہیں کیا تھا۔ علامہ بیہقی (رح) نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : پس ہم بدر کی طرف نکلے، جب ہم نے ایک یا دو دن کا سفر کرلیا تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم ارشاد فرمایا کہ ہم اپنی تعداد شمار کریں چناچہ ہم نے ایسا کہا تو ہم تین سو تیرہ افراد تھے، ہم نے اپنی تعداد کے بارے میں حضور نبی مکرم ﷺ کو عرض کیا تو آپ اس پر بہت خوش ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و چنا بیان کی اور فرمایا : ” یہ اصحاب طالوت کی تعداد تھی “ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، جلد 2 صفھہ 564 ) ۔ ابن اسحاق نے کہا ہے : ان تمام لوگوں کا گمان یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ جنگ نہیں لڑیں گے پس انہوں نے زیادہ تیاری نہ کی۔ اور ابو سفیان جس وقت حجاز کے قریب پہنچا تو وہ خبریں لینے لگا اور جس سوار سے ملاقات ہوتی اس سے حالات کے بارے پوچھتا، کیونکہ اسے لوگوں کے مال پر خوف لاحق ہوگیا تھا، یہاں تک کہ بعض سواروں سے اسے یہ خبر پہنچی کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے تمہارے لیے لوگوں کو جمع کیا ہے ( اور جنگ پر ابھارا ہے) تو وہ اس سے ڈر گیا اور اس نے ضمضم بن عرو غفاری کو اجرت پر لیا اور اسے مکہ بھیجا اور اسے یہ حکم دیا کہ وہ قریش کے پاس جائے اور نہیں اپنے اموال ( کی حفاظت) کے لیے جمع کرے اور انہیں یہ خبر دے کہ محمد ﷺ اپنے اصحاب کے ہمراہ اس کے لیے رکاوٹ ہیں۔ پس ضمضم نے ایسا ہی کیا۔ تو اہل مکہ ایک ہزار یا اسی طرح کی تعداد میں نکلے اور حضور نبی مکرم ﷺ اپنے اصھاب کے ہمراہ نکلے۔ اور آپ ﷺ کو قریش کے بارے خبر موصول ہوئی کہ وہ اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے نکل پڑے ہیں۔ تب حضور نبی مکرم ﷺ نے لوگوں سے مشورہ کیا، پس حضرت ابوبکر صدیق ؓ کھڑے ہوئے اور بہت اچھی گفتگو کی، پھر حضرت عمر فاروق اعظم ؓ اٹھے اور آپ نے بھی انتہائی خوبصورت گفتگو کی، پھر حضرت مقداد بن عمرو ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ آپ وہ کیجئے جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم فرمایا ہے، ہم آپ کے ساتھ ہیں، قسم بخدا ہم اس طرح نہیں کہیں گے جیسے بنی اسرائیل نے کہا : آیت : فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قعدون ( المائدہ) ( پس جاؤ تم اور تمہارا رب اور دونوں لڑو ( ان سے) ہم تو یہاں ہی بیٹھیں گے) ولکن اذھب انت وربک فقاتلا انا معکم مقاتلون ( بلکہ آپ چلیں اور آپ کا رب اور دونوں جنگ لڑیں بلاشبہ ہم تمہاے ساتھ مل کر جنگ لڑیں گے) اور قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے آپ برک الغماد یعنی شہر حبشہ تک چلیں، ہم وہاں تک تمہاری معیت میں لڑیں گے۔ رسول اللہ ﷺ اس سے بہت خوش ہوئے اور نہیں دعا خیر سے نوازا۔ پھر ارشاد فرمایا : ” اے لوگو ! مجھے مشورہ دو “۔ آپ کی مراد انصار تھے۔ اس لیے کہ وہی لوگ زیادہ تعداد میں تھے اور انہوں نے جس وقت عقبہ پر آپ کی بیعت کی تھی تو عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ بیشک ہم آپ کی حفاظت اور ذمہ سے بری ہیں یہاں تک کہ آپ ہمارے شہر میں تشریف لے آئیں۔ پس جب آپ ہمارے پاس تشریف لے آئیں گے تو آپ ہماری ذمہ داری میں ہوں گے۔ ہم آپ کی ہر اس شے سے حفاظت کریں گے جس سے ہم اپنی، اپنی اولاد، اور اپنی عورتوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ پس رسول اللہ ﷺ یہ خوف محسوس فرما رہے تھے کہ انصار یہ رائے نہ رکھتے ہوں کہ ان پر آپ ﷺ کی مدد و نصرت کرنا صرف مدینہ طیبہ میں لازم ہے اور ان پر یہ لازم نہیں کہ آپ نہیں ساتھ لے کر ان کے شہروں سے باہر دشمن کی طرف چل پڑیں۔ پس جب رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تو ان میں سے حضرت سعد بن معاذ ؓ اور بعض نے کہا ہے : کہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے گفتگو کی۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس دن ان دونوں نے گفتگو کی ہو۔ عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا آپ ہم گروہ انصار کا ارادہ فرما رہے ہیں ؟ تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” ہاں “۔ تو انہوں نے عرض کی : بیشک ہم آپ ﷺ کے ساتھ ایمان لائے اور ہم نے آپ کی اتباع اور پیروی کی، آپ وہ کیجئے جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم فرمایا ہے قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ! اگر آپ ہمیں اس سمندر تک لے چلیں اور پھر آپ اس میں کود جائیں تو یقینا ہم آپ کے ساتھ اس میں کود جائیں گے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : امضوا علی برکۃ اللہ فکانی انظر الی مصرع القوم ( تم اللہ تعالیٰ کی برکت کے ساتھ چلو گویا میں قوم کے گرنے کی جگہوں کی طرف دیکھ رہا ہوں) پس رسول اللہ ﷺ چل پڑے اور بدر کے پانی تک قریش سے پہلے جا پہنچے۔ اور قریش کو پہلے پہنچنے سے اس موسلا دھار بارش نے روکا جو اللہ تعالیٰ نے ان پر نازل فرمائی اور مسلمانوں پر صرف اتنی مقدار میں برسی جس نے ان کے لیے وادی کی نرم ریت کو سخت اور مضبوط کردیا اور چلنے میں ان کی معاون ثابت ہوئی۔ الدھس سے مراد ایسی نرم ریت ہے جس میں پاؤں دھنس جاتے ہوں۔ آپ ﷺ بدر کے پانیوں میں سے مدینہ طیبہ کی جانب قریب تر پانی کے پاس اتر پڑے۔ تو حضرت حباب بن منذر بن عمرو بن جموح نے اس کے سوا کی طرف اشارہ کیا اور آپ سے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ اس منزل کے بارے آپ کی کیا رائے ہے، کیا یہ ایسی منزل ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اترنے کا حکم فرمایا اور ہمارے لیے اس جگہ سے آگے پیچھے ہونا جائز نہیں یا پھر یہ رائے اور جنگی چال ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” (نہیں) بلکہ یہ رائے، جنگ اور تدبیر ہے “۔ تو انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ، بلاشبہ یہ آپ کے لیے اترنے کی جگہ مناسب اور موزوں نہیں ہے، پس ہمیں اٹھا کر اس قوم کے قریب تر پانی کے پاس لے چلیں ہم وہاں پڑاؤ ڈالیں گے اور اس کے پیچھے جو کنویں ہیں ہم انہیں بند کردیں گے، پھر ہم وہاں حوض بنا لیں گے اور اسے پانی سے بھر دیں گے نتجۃ ہم پانی پئیں گے اور وہ نہیں پی سکیں گے۔ حضور نبی رحمت ﷺ نے ان کی اس رائے کو مستحسن قرار دیا اور اسی کے مطابق عمل کیا۔ پھر دشمن سے مقابلہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ اور مسلمانوں کی مدد اور نصرت فرمائی، آپ نے ستر مشرکیں کو قتل کیا اور ان میں سے ستر کو قیدی بنا لیا اور ان سے مومنین کا انتقام لیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول معظم ﷺ کے سینہ مبارک اور آپ کے صحابہ کرام کے سینوں کو ان کے غیظ وغضب سے شفا عطا فرمائی۔ (اور انہیں ٹھنڈا کیا) اور اسی بارے حضرت حسان ؓ کہتے ہیں :۔ عرفت دیار زینب بالکثیب کخط الوحی فی الورق القشیب میں نے ٹیلے پر زینب کھ گھر کو اس طرح پہنچان لیا جس طرح بوسیدہ کاغذ پر تحریر کے خط کو پہچان لیا جاتا ہے۔ تداولھا الریاح وکل جون من الوسمی منھمر سکوب ان گھروں پر ہوائیں چلتی ہیں اور موسم بہار کا ہر سیاہ بادل لگاتار اور موسلا دھار برستا ہے۔ فامسی ربعھا خلقا وامست یبابا بعد ساکنھا الحبیب پس ان کے نشان بوسیدہ ہوگئے اور وہ اجڑے پڑے ہیں جب کہ پہلے کبھی وہاں محبوب رہتا تھا۔ فدع عنک التذکر کل یوم ورد حرارۃ الصدر الکئیب تو پر روز ام کو یاد کرنا چھوڑ دے اور اپنے غمزدہ سینے کی حرارت کو ختم کر دے۔ وخبر بالذی لا یعب فیہ بصدق غیر اخبار الکذوب اور ان جھوٹے قصوں کی اخبار کو چھوڑ کر اسی سچی بات کی خبر دے جس کے سنانے میں کوئی حرج نہیں۔ بما صنع الالہ غداۃ بدر لنا فی المشرکین من النصیب سنا کہ خداوند (مقتدر) نے ہمیں بدر کے دن مشرکین پر کامیابی عطا فرمائی غداۃ کان جمعھم حرائ بدت ارکانہ جنح الغروب وہ دن جب ان کا گروہ کوہ حرا کی طرح معلوم ہوتا تھا لیکن ان کی بنیادیں زوال کے وقت جھک گئیں۔ فلا قیناھم منا بجمع کا سد الغاب مردان وشیب ہم نے ایک ایسی جماعت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا جس کے بوڑھے اور جوان سب جنگل کے شیر تھے۔ امام محمد قد وازروہ علی الاعداء فی لفح الحروب وہ جماعت سیدنا محمد ﷺ کے سامنے تھی جس نے جنگ کی لپیٹ میں آپ ﷺ کی حفاظت کی۔ بایدیھم صوارم مرھفات وکل مجرب خاطی الکعوب ان کے ہاتھوں میں پتلی اور تیز دھار والی تلواریں اور موٹی موٹی گرہوں والے آزمودہ نیزے تھے۔ بنو الاوس الغطارف وازر تھا بنو النجار فی الدین الصلیب وہ سرداران بنو اوس تھے جنہیں دین محکم میں بنو نجار نے مدد دی تھی۔ فغادرنا ابا جھل صریعا وعتبۃ قد ترکنا بالجبوب پس ہم نے ابو جہل کو پچھاڑا ہوا اور عتبہ کو سخت زمین پر پڑا ہوا چھوڑا۔ وشیبۃ قد ترکنا فی رجال ذوی حسب اذا نسبوا حسیب اور شیبہ کو ایسے لوگوں میں چھوڑا جن کے نسب جب بیان کیے جائیں تو وہ بڑے نسب والے نکلیں۔ ینادیھم رسول اللہ لما قذفناھم کباکب فی القلیب جب ہم نے انہیں جھتوں کی صورت میں کنویں میں ڈالا تو رسول اللہ ﷺ انہیں ندا دے رہے تھے۔ الم تجدوا کلامی کان حقا وامر اللہ یاخذ بالقلوب کیا تم نے نہیں پایا کہ میرے بات سچ تھی اور اللہ کا حکم دلوں کو ( بھی) پکڑ لیتا ہے۔ فما نطقوا ولو نطقوا لقالوا اصبت وکنت ذار ای مصیب وہ کچھ نہ بولے اور اگر وہ بولتے تو کہتے کہ آپ نے سچ کہا تھا اور آپ ہی صحیح رائے والے تھے۔ اور یہاں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : 1 امام مالک (رح) نے بیان کیا ہے : مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا : تم میں اہل بدر کیسے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ” وہ ہم میں انتہائی عظیم اور اچھے لوگ ہیں “۔ تو انہوں نے کہا : ” بلاشبہ وہ ہمارے درمیان بھی اسی طرح ہیں “ (صحیح مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا، جلد 2، صفحہ 387) ۔ تو یہ اس بات پر دلیل ہے کہ مخلوقات کا شرف و عظمت ان کی ذاتوں کے سبب نہیں ہوتا، بلکہ ان کے افعال کے سبب ہوتا ہے۔ پس ملائکہ کے افعال شریفہ دائمہ تسبیح وتحمید پر مواظبت اختیار کرنا ہے۔ اور ہم اورے افعال کا شرف اطاعت و بندگی میں اخلاص پیدا کرنے کے ساتھ ہے۔ اور طاعات کی افضیلت شریعت کے انہیں فضیلت دینے کے ستھ ہے اور ان میں سب سے افضل جہاد ہے اور افضل ترین جہاد یوم بدر ہے، کیونکہ اسلام کی بنیاد (اور مضبوطی) اسی پر ہے۔ مسئلہ نمبر 2 : حضور نبی مکرم ﷺ کا قافلہ کی راہ روکنے کے لیے نکلنا اس پر دلیل ہے کہ مال غنیمت کے حصول کے لیے لشکر لے کر نکلنا جائز ہے، کیونکہ یہ کسب حلال ہے۔ اور یہ اسے رد کرتا ہے جسے امام مالک (رح) نے مروہ قرار دیا ہے، جب کہ انہوں نے کہا ہے : یہ جنگ دنیا کے حصول کے لیے ہے۔ اور یہ جو روایت ہے کہ جس نے اس لیے قتال کیا تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے والا ہے اور یہ اس کے سوا ہے جو مال غنیمت کے حصول کے لیے قتال کرتا ہے، تو اس سے مراد یہ ہے کہ جب اس کا قصد اور ارادہ صرف یہی ہوا اور اس میں دین کا کوئی حصہ نہ ہو۔ حضرت عکرمہ (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے فرمایا : جب حضور نبی مکرم ﷺ غزوہ بدر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے (صحابہ کرام) نے آپ ﷺ سے عرض کی : آپ پر قافلے کو پکڑنا لازم ہے، اس کے سوا کوئی شے نہیں۔ تو عباس نے انہیں ندا کہا : کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دو گروہوں میں سے ایک کا آپ کے ساتھ وعدہ فرمایا، تحقیق اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ عطا فرما دیا ہے جس کا اس نے آپ سے وعدہ فرمایا۔ تو حضور نبی کرم ﷺ نے فرمایا : ” تم نے سچ کہا ہے “ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، جلد 2، صفحہ 569) اور حضرت عباس کو اس کا علم حضور نبی ﷺ کے اصحاب کی باتوں سے اور جو بدر کا معاملہ ہوا اس سے ہوا۔ پس انہوں نے اسے دوران گفتگو سناج۔ مسئلہ نمبر : 3 مسلم نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین دن تک مقتولین کی بدر کو چھوڑے رکھا، پھر آپ ﷺ ان کے قریب کھڑے ہوئے اور انہیں ندا دی اور فرمایا :” اے ابا جہل بن ہشام، اے امیہ بن خلف، اے عتبہ بن ربیہ، اے شیبہ بن ربیعہ کیا تم نے اسے سچ نہیں پایا جو تمہارے رب نے وعدہ کا بلاشبہ میں نے اسے سچ پا لیا ہے جو میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا الیس قد وجدتم ما وعد ربکم حقا فانی قدوجدت ما وعدنی ربی حقا (جامع ترمذی، ابواب التفسیر، سورة انفال، جلد 2، صفحہ 134) پس حضرت عمر ؓ نے حضور نبی مکرم ﷺ کا یہ قول سنا تو عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ وہ کیسے سن سکتے ہیں اور وہ کیونکر جواب دے سکتے ہیں حالانکہ وہ مردار ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : والذی نفسی بیدہ ما انتم باسمع لما اقول منھم ولکنھم لا یقدرون ان یجیبوا ( قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ! میرا قول تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے لیکن وہ جواب دینے کی قدرت نہیں رکھتے) بعد ازاں آپ ﷺ نے ان کے بارے حکم دیا پس انہیں گھسیٹا گیا اور انہیں بدر کے کنوئیں میں پھینک دیا گیا۔ جیفواجیم اور یا کے فتحہ کے ساتھ ہے اور اس کا معنی ہے وہ بدبودار ہوگئے اور مردار بن گئے۔ اور حضرت عمر ؓ کا قول : یسمعون کا اطلاق اس پر بعید ہے جس کے مطابق عادت جاریہ ہے۔ تو حضور نبی مکرم ﷺ نے انہیں جواب دیا کہ وہ زندوں کے سننے کی طرح سن رہے ہیں۔ اور اس میں اس پر دلیل ہے کہ موت نہ عدم محض ہے اور نہ صرف فنا ہے۔ بلکہ یہ تو روح کے تعلق کا بدن سے منقطع ہونا اور اس سے جدا ہونا ہے اور یہ ان دونوں کے درمیان حائل ہونے والی ہے۔ اور حالت کا تبدیل ہونا اور ایک دار سے دوسرے دار کی طرف منقتل ہونا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ان المیت اذا وضع فی قبرہ وتولی عنہ اصحابہ انہ یسمع قرع نعالھم، الھدیث (صحیح مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا، جلد 2، صفحہ 386) ( بیشک میت کو جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے واپس آتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز کو سنتا ہے) اخرجہ الصحیح۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ویثبت بہ الاقدام اس میں بہ میں ضمیر اس پانی کی طرف لوٹ رہی ہے جس نے وادی کی نرم ریت کو سخت کردیا، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ ربط القلوب ( دلوں کو مضبوط کرنا) کی طرف لوٹ رہی ہے۔ پس تثبیت الاقدام سے مراد میدان جنگ میں مدد ونصرت کا حاصل ہونا ہے۔
Top