Mafhoom-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 58
ذٰلِكَ نَتْلُوْهُ عَلَیْكَ مِنَ الْاٰیٰتِ وَ الذِّكْرِ الْحَكِیْمِ
ذٰلِكَ : یہ نَتْلُوْهُ : ہم پڑھتے ہیں عَلَيْكَ : آپ پر مِنَ : سے الْاٰيٰتِ : آیتیں وَالذِّكْرِ : اور نصیحت الْحَكِيْمِ : حکمت والی
یہ آیتیں ( اور حقیقی بیان یعنی حکمت بھری نصیحتیں) ہم تجھے پڑھ کر سناتے ہیں
عیسٰی (علیہ السلام) کی پیدائش کی مثال تشریح : اہل کتاب محمد رسول اللہ ﷺ سے جھگڑا کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے نہیں بلکہ اس کے بیٹے ہیں، ان لوگوں کی عقل میں یہ بات آہی نہیں رہی تھی کہ باپ کے بغیر بیٹا کیسے پیدا ہوسکتا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ حکمت اور دانائی کی باتیں ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) تو صرف باپ کے بغیر پیدا کئے گئے ہیں، جب کہ حضرت آدم (علیہ السلام) تو بغیر باپ اور ماں کے صرف اللہ کے حکم سے پیدا کئے گئے تھے تو کیا وہ بھی اللہ کا بیٹا یا نعوذ باللہ اللہ کہلانے کے حقدار ہوگئے تھے۔ ہرگز نہیں یہ تو اللہ رب العزت کی حکمت اور کمال ہے کہ اس نے ان دونوں کی پیدائش عام طریقہ سے نہ کی۔ یہ بالکل سچ اور حقیقت بیان کی گئی ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی بھی بات نہیں۔ لیکن اس وقت انسان اس حکمت الٰہی اور کاریگری تک نہیں پہنچ سکتا تھا جس کی طرف رب العزت نے قرآن پاک میں مختلف آیات میں بڑا واضح طور پر بتایا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا گیا اور پھر اللہ کے حکم ” کن “ سے وہ جیتے جاگتے انسان بن گئے۔ مثلاً : سورة مومنون کی آیت 12 میں فرمایا گیا :” ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے بنایا “۔ سورة ٔ سجدہ کی آیت 7 میں ہے : جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی، اس نے انسان کی تخلیق کی ابتداء مٹی کے گارے سے کی۔ سورۃ الصّٓفّٰت کی آیت 11 میں کہا گیا ہے۔ ان کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے۔ دراصل اوپر دی گئی تمام آیات آدم کی تخلیق کے بارے میں عظیم سائنسی سچائیوں کا اظہار کرتی ہیں اور ماہرین علم طبیعات، ریاضیات اور حیاتیات نے حال ہی میں اس نکتہ پر بڑی واضح اور سچائیوں سے بھرپور تحقیقات شائع کی ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر ہلوک باقی صاحب اپنی کتاب ” قرآنی آیات اور سائنسی حقائق “ میں لکھتے ہیں : ” آج سے سو سال پہلے اس سوال کا جواب ناممکن تھا مگر آج ہم اس قسم کی مٹی کی خصوصیات سمجھنے کے قابل ہیں مٹی میں اور چکنے گارے میں کاربن اور نائٹروجن کے ایٹموں کے ملاپ کی طاقت یا گرفت اس طرح ہے۔ سی 4- اور این۔ 3 اس خصوصیت میں یہ راز پنہاں ہے کہ آکسیجن، فاسفورس اور ہائیڈروجن جو زمین میں قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں۔ آپس میں منفی طور پر چارج کئے گئے کاربن اور نائٹروجن کے ذریعے مل سکتے ہیں۔ اس طرح انسانی جسم کے بنیادی اجزاء وجود میں آتے ہیں۔ یہی وہ راز ہے جو بیاں کی گئی آیات میں موجود ہے۔ اگرچہ تمام بنیادی جواہر (طاقتیں) بھی موجود ہوں اور وہ عمل کرنے کے قابل بھی ہوں تب بھی یہ ایک سالمہ (Cell) بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ کہاں انسانی جسم کو پیدا کرنا اور اب جسم انسانی کو مکمل طور پر پیدا کرنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کا ریاضیاتی پروگرام اور اس کا حکم ” ہوجا “۔ دراصل تمام انسانوں کی جسمانی خصوصیات کے قواعد (کوڈ) آدم کے نطفہ (بچہ پیدا کرنے کا پانی یا مادہ) میں ایک پروگرام کی صورت میں مہیا کردیئے گئے ہیں۔ تمام خصوصیات ایک ناخن سے لے کر چہرے کے تل تک کے قواعد (Code) اس انتہائی چھوٹے نکتہ میں مہیا کردیئے گئے ہیں جس کا سائز ایک سینٹی میٹر کے دس لاکھویں حصہ سے بھی چھوٹا ہے اور دس ارب انسانوں کے الگ الگ انگلیوں کے نشان (فنگر پرنٹ) بھی اسی طرح مہیا کئے گئے ہیں۔ ” یہی اللہ جل شانہ کی طرف سے تخلیق کا راز ہے “۔ سبحان اللہ۔ کن (ہوجا) یہ اللہ کا بنیادی کوڈ ہے جو لوح محفوظ پر موجود ہے۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ عیسائیوں سے سوال ہو رہا ہے کہ اگر تم عیسیٰ کو صرف اس لئے اللہ کا بیٹا کہتے ہو کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوا ہے تو پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کو تو بہت ہی بڑا درجہ دینا چاہئے کیونکہ وہ تو ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا کئے گئے ہیں۔ اللہ قادر مطلق ہے۔ اس نے جو کچھ بھی تمہیں بتا دیا ہے وہ ہر قسم کے شک و شبہہ سے پاک ہے۔ اس لئے تم لوگوں کو چاہئے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو صرف ایک پیغمبر اور بہترین انسان ہی سمجھو۔ لیکن یہ بات بہت سے عیسائیوں کی سمجھ میں نہیں آسکی۔ اگلی آیت میں اسی سلسلے میں محمد ﷺ سے بحث مباحثہ کا ذکر کیا گیا ہے۔
Top