Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 58
ذٰلِكَ نَتْلُوْهُ عَلَیْكَ مِنَ الْاٰیٰتِ وَ الذِّكْرِ الْحَكِیْمِ
ذٰلِكَ : یہ نَتْلُوْهُ : ہم پڑھتے ہیں عَلَيْكَ : آپ پر مِنَ : سے الْاٰيٰتِ : آیتیں وَالذِّكْرِ : اور نصیحت الْحَكِيْمِ : حکمت والی
یہ ہم تمہیں سنا رہے ہیں اپنی آیات اور اپنی پر حکمت یاد دہانی میں سے۔
پیغمبر کی طرف التفات : یہ آیت اور اس کے ساتھ کی پانچ آیتیں نبی ﷺ کی طرف التفات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اثنائے کلام میں آپ کو مخاطب کر کے مخالفین خصوصا نصاری کے رویے کے مقابل میں تسلی بھی دی گئی ہے۔ اور بعض ضروری ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ جو عیسیٰ کی پوری تاریخ تمہیں سنائی گئی ہے۔ تو یہ ہے اصل حقیقت مسیح کی۔ یہ اس قسم کی من گھڑت داستان نہیں ہے جیسی کہ نصاری نے تصنیف کر رکھی ہے بلکہ یہ اللہ کی آیات ہیں اور یہ ایک پر حکمت یاد دہانی ہے۔ یعنی نصاری نے تو اس کو ایک میتھالوجی بنا کر رکھ دیا ہے جس سے صرف گمراہی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اللہ نے اس کو از سرِ نو تمہارے ذریعے سے آشکار کیا ہے تاکہ اس سے حق ہدایت اور حکمت و موعظت کی راہیں کھلیں۔ بعینہ اسی قسم کا التفات آگے آیت 108 میں آ رہا ہے۔ اس سے اس آیت کے بعض الفاظ کی وضاحت بھی ہو رہی ہے۔ ارشاد ہے تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعَالَمِينَ : یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم تمہیں حق کے ساتھ سنا رہے ہیں اور اللہ دنیا والوں پر کوئی ظلم نہیں کرنا چاہتا (آل عمران :108)۔ یعنی یہ حق کو از سرِ نو اس لیے واضح فرما دیا ہے تاکہ لوگوں کے لیے گمراہی پر جمے رہنے کے لیے عذر باقی نہ رہ جائے۔ اور اگر وہ گمراہی پر جمے رہیں تو ذمہ ان کی اپنی ہو۔
Top