Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 58
ذٰلِكَ نَتْلُوْهُ عَلَیْكَ مِنَ الْاٰیٰتِ وَ الذِّكْرِ الْحَكِیْمِ
ذٰلِكَ : یہ نَتْلُوْهُ : ہم پڑھتے ہیں عَلَيْكَ : آپ پر مِنَ : سے الْاٰيٰتِ : آیتیں وَالذِّكْرِ : اور نصیحت الْحَكِيْمِ : حکمت والی
یہ بات ہم آپ پر تلاوت کرتے ہیں ، یہ آیتیں ہیں اور محکم بیان ہے۔
رفع عیسیٰ (علیہ السلام) پر دلائل : گذشتہ درس میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کا ذکر ہوچکا ہے۔ اس درس میں اس موضوع پر بعض دلائل ہوں گے اور واقعہ رفع کی مزید تفصیلات پیش کی جائیں گی۔ چناچہ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اٹھائے جانے کا واقعہ بعید از قیاس نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر جو معجزات ظاہر فرمائے ، وہ اس بات کی طرف اشارہ تھا۔ کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ غیر معمولی سلوک کر رہا ہے ، پہلے گزر چکا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مٹی سے پرندے کی شکل بناتے ، پھر اس میں پھونک مارتے تو وہ اللہ کے حکم سے زندہ پرندہ بن کر اڑ جاتا۔ آپ کا دوسرا معجزہ یہ تھا۔ کہ آپ لاعلاج بیماریوں کا علاج کرتے جن امراض سے دنیا بھر کے اطباء عاجز آ چکے تھے ، عیسیٰ (علیہ السلام) ہاتھ لگاتے تو اللہ تعالیٰ شفا دے دیتا۔ اسی طرح آپ کا آسمان کی طرف اٹھائے جانا بھی عین ممکن ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش میں نفخہ جبرائیلیہ کا اثر تھا۔ اللہ کے حکم سے جبریل (علیہ السلام) نے حضرت مریم کے گریبان میں پھونکا تھا۔ تو اس کے اثر سے حضرت عیسیٰ کی پیدائش ہوئی گویا آپ کو فرشتوں کے ساتھ کامل مناسبت ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے۔ کہ جبرائیل (علیہ السلام) جن کا لقب روح القدس ہے وہ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتے تھے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، وایدنہ بروح القدس۔ یعنی ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح القدس سے تائید فرمائی آپ کی اس غیر معمولی حیثیت کی بناء پر آپ کے اترفاع پر حیرت کا اظہار کسی طور پر مناسب نہیں۔ اس معاملہ میں شک کرنے والے لوگ نہ تو معجزات کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ انہیں اللہ تعالیٰ کے قادر مطلق ہونے پر یقین ہے۔ ایسے لوگ دہریے ، پرویزی یا نیچری تو ہوسکتے ہیں ، کوئی مومن اس شبہ میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے اٹھائے جانے اور دوبارہ نزول کا سلف میں سے کسی نے انکار نہیں کیا۔ حضرت قتادہ جو تابعین میں سے ہیں ، فرماتے ہیں ، فطار علی الملئکۃ وھو معہم ، عیسیٰ (علیہ السلام) فرشتوں کے ساتھ اڑتے ہوئے گئے اور فرشتوں کے ساتھ اڑنے میں کسی کو تعجب نہیں ہوتا۔ فرشتے آسمانوں میں اڑتے ہیں ، عرش الہی کے گرد چکر لگاتے ہیں اور ایسا کرنے میں انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ امام بغوی فرماتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) میں چاروں صفات پائی جاتی ہیں ، یعنی انسیا ، ملکیا ، سماویا اور ارضیا ، آپ انسان ہیں۔ آپ میں ملکی صفات بھی پائی جاتی ہیں۔ آپ سماوی بھی ہیں اور ارضی بھی ہیں۔ فرشتے کے روح پھونکنے کی بناٗ پر آپ سماوی ہیں اور والدہ کی نسبت سے ارضی ہیں۔ لہذا آپ کے آسمان پر چلے جانے پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ حضرت قتادہ کے علاوہ مفسر قرآن حضرت ضحاک ، حضرت مجاہد ، حضرت عکرمہ ، سعید ابن جبیر ، سعید ابن مسیب ، حضرت حسن بصری ، محمد ابن سیرین یہ سب تابعین میں سے ہیں اور بڑے پائے کے لوگ ہیں۔ یہ سب رفع مسیح کے قائل ہیں۔ امام ابوحنیفہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ آپ نے آٹھ صحابہ کی زیارت کی ہے اور چار سے روایت بھی بیان کرتے ہیں۔ چار مسلمہ فقہا مٰں سے یہ شرف صرف امام ابوحنیفہ کو حاصل ہوا ہے۔ آپ بھی یہی فرماتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے اٹھائے جانے میں کسی قسم کا استعجاب نہیں ہونا چاہئے۔ نشانات صداقت : تو اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع کے متعلق فرمایا۔ ذلک نتلوہ علیک من الایات۔ یہ باتیں جو ہم عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ یہ آیات الہی میں سے ہیں۔ اس سے پیشتر حضرت مریم اور زکریا (علیہ السلام) کے واقعات کے متعلق بھی آ چکا ہے۔ ذلک من انباء الغیب نوحیہ الیک۔ یعنی یہ غیب کی خبریں ہیں ، جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں اور آپ ان کے پاس نہیں تھے جب وہ قرعہ ڈال رہے تھے۔ کہ مریم کی کفالت کون کرے اور نہ اس وقت آپ ان کے پاس تھے ، جب وہ جھگڑ رہے تھے۔ وہاں پر بھی یہ باتیں حضور ﷺ کی نبوت و رسالت کی دلیل کے طور پر بیان کی گئی تھیں اور یہاں پر بھی ، نتلوہ علیکم میں آپ کی رسالت کی صداقت کا تذکرہ ہے۔ قرآن پاک میں آیت کا لفظ کئی معنوں میں آیا ہے۔ آیت کا معنی نشانی ہوتا ہے۔ چناچہ اس مقام پر آیت سے مراد یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کے متعلق جو صحیح صحیح واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ یہ آپ کی صداقت کی نشانی ہے۔ اور آیت کا معنی دلیل بھی ہوتا ہے۔ لایات لاولی الالباب۔ اس میں عقلمندوں کے لیے دلائل ہیں۔ اسی طرح آیت کا معنی معجزہ بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو کوئی نہ کوئی معجزہ عطا کیا ہے ، آیات سے مراد احکام اور مسائل بھی ہوتے ہیں اور قرآن پاک میں کئی مقامات پر یہ لفط ان معانی میں استعمال ہوا ہے۔ فرمایا ، والذکر الحکیم ، یہ جو کچھ ہم پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ یہ محکم بیان بھی ہے۔ بیان کا معنی Sattement یعنی مسیح (علیہ السلام) کے متعلق وضاحت ہے۔ اور حکیم سے مراد مضبوط اور مستحکم ہے۔ اس سے مراد حکمت والا بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک سلیم الفطرت انسان جو حواس ظاہرہ اور باطنہ کو صحیح طریقے سے استعمال کرتا ہے ، وہ یقینا یہی اعتقاد رکھے گا کہ مریم اور مسیح (علیہ السلام) الہ نہیں بلکہ انسان ہیں۔ یاد رہے کہ حواس ظاہرہ سے مراد آنکھ ، کان ، ناک اور لمس وغیرہ ہیں۔ اور حواس باطنہ میں وہم ، خیال ، فکر اور حس مشترک وغیرہ آتے ہیں۔ صانع اور مصنوع : یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص نظام کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ اور یہ اللہ کی خاص مخلوق ہے۔ باقی ہر چیز عام مخلوق ہے۔ مخلوق خاص ہو یا عام یہ اللہ کی بنائی ہوئی ہے۔ اور مصنوع کہلاتی ہے اللہ تعالیٰ اس کا بنانے والا یعنی صانع ہے۔ قرآن پاک میں اس کے لیے بدیع کا لفظ آیا ہے۔ فاطر اور خالق کے الفاظ بھی آتے ہیں۔ صانع کا لفظ حدیث شریف میں آیا ہے۔ ان اللہ خلق کل صانع وصنعتہ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر صانع یعنی کاریگر اور اس کی صنعت کو پیدا کیا ہے۔ اب دیکھئے جس طرح باقی اشیاٗ مصنوع ہیں ، اسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) بھی مصنوع ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا صانع ہے۔ اور ہر صاحب عقل سلیم جانتا ہے کہ ہر مصنوع چیز خواہ وہ مشینری ہو ، برتن ہو ، کپڑا وگیرہ ہو ، اپنے صانع کی دلیل ، علامت اور نشانی ہوتی ہے۔ اور اگر کسی مصنوع کو ہی صانع بنا دیا جائے تو اعتقاد باطل ہوجائے گا۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے یہاں پر لفظ آیت سے سمجھائی ہے کہ ذرا غور کرو مسیح (علیہ السلام) مصنوع ہیں ، صانع نہیں ہیں ان کو اللہ یا خدا کا بیٹا یا تیسرا خدا بنانا باطل عقیدہ ہے۔ اس طرح تو ساری حکمت ہی باطل ہوجائے گی۔ یہ عقل انسانی اور فطرت سلیمہ کے خلاف ہے کائنات میں پائی جانیوالی تمام اشیاء اللہ تعالیٰ کی کاریگری اور صنعت کی نشانیاں ہیں۔ فی کل شیئ لہ ایۃ تدل علی انہ واحد : جو یقیناً بتاتی ہے کہ اس کا پیدا کرنیوالا خدائے واحد ہے ، شیخ سدی نے بھی کہا ہے ہر گیا ہے کہ از زمین روید وحدہ لاشریک لہ گوید جو بھی گھاس زمین سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ زبان حال سے وحدہ لاشریک کہتی ہے ہر ہر پتہ اور ہر ہر ذرہ اپنے صانع یعنی خالق کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے۔ ہر چیز خود بخود معرض وجود میں نہیں آگئی۔ بلکہ اس کو ظاہر کرنیوالی کوئی ہستی موجود ہے۔ مولانا رومی نے یہ بات ایک مثال کے ذریعے سمجھائی ہے۔ فرماتے ہیں : ہیچ چیزے خود بخود چیزے نہ شد ہیچ آہن خود بخود تیغے نہ شد کوئی چیز خود بخود نہیں بن جاتی جس طرح کوئی لوہا خود بخود تلوار کی شکل اختیار نہیں کرتا۔ بلکہ اس کا کوئی صانع ہوتا ہے۔ مقصد یہ کہ ہر مصنوع کا کوئی صانع ہے۔ اور ہر مصنوع اپنے صانع کی نشانی ہوتی ہے۔ اسی طرح مسیح (علیہ السلام) بھی اپنے پیدا کرنے والے اللہ کی نشانی ہوتی ہے۔ اسی طرح مسیح (علیہ السلام) بھی اپنے پیدا کرنے والے اللہ کی نشانی ہیں۔ وہ خود الہ نہیں ہیں۔ رفع کی مزید تفصیل : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان پر اٹھائے جانے کے متعلق مفسرین روایت بیان کرتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے بادل کو مقرر کیا۔ وہ بادل قریب آیا تو آپ اس میں داخل ہوگئے۔ جب بادل آپ کو للے کر اوپر اٹھا ، تو آپ کی والدہ قریب ہی تھیں ، انہوں نے آپ کو پکڑ لیا اور چلانے لگیں مگر آپ کی والدہ قریب ہی تھیں ، انہوں نے آپ کو پکڑ لیا اور چلانے لگیں مگر آپ نے فرمایا کہ اب ہمارے اکٹھا رہنے کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ ان القیامۃ تجمعنا۔ اب قیامت ہی کو ہم اکٹھے ہوں گے۔ تفسیر جلالین میں یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ واقعہ لیلۃ القدر کی رات پیش آیا۔ اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر 33 سال تھی۔ آپ کی والدہ محترمہ صدیقہ مریم آپ کے اٹھائے جانے کے بعد چھ سال زندہ رہیں۔ پھر وفات پا گئیں۔ نزول مسیح : بخاری اور مسلم شریف کی روایت میں ہے۔ ینزل بقرب القیامۃ مسیح (علیہ السلام) قیامت کے قریبی زمانہ میں زمین پر نازل ہوں گے۔ یحکم بشریعۃ نبینا ہمارے نبی کی شریت کے مطابق حکم جاری کریں گے کیونکہ ان کی اپنی شریعت کا دور ختم ہوچکا ہے۔ وہ حضور خاتم النبیین ﷺ کے نائب ، امتی اور قابل جرنیل کی حیثیت سے زمین پر آئیں گے ، قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کریں گے۔ اور جیسا کہ مسلم شریف روایت میں آتا ہے۔ دفجال اور خنزیر کو قتل کریں گے۔ صلیب کو توریں گے اور جزیے کو موقوف کریں گے۔ مسلم شریک کی ایک اور روایت کے مطابق آپ سات سال تک زمین پر ٹھہریں گے۔ ابوداود کی ایک روایت کے مطابق عیسیٰ (علیہ السلام) کی زمین پر ٹھہرنے کی کل مدت چالیس سال ہے۔ آپ 33 سال عمر گزار چکے ہیں۔ اور باقی سات سال دوبارہ نزول پر گزاریں گے۔ ایک اور روایت میں یہ بھی آتا ہے۔ کہ نزول ثانی پر یزوج ویولد لہ ، آپ نکاح کریں گے اور اولاد ہوگی۔ ابن ابی شیبہ اور مسلم کی روایت میں آتا ہے کہ جب تک عیسیٰ (علیہ السلام) زمین پر دوبارہ نازل نہیں ہوں گے۔ لاتقوم الساعۃ ، قیامت برپا نہیں ہوگی۔ آپ اتریں گے اس حالت میں کہ حکماً فیصلہ کرنے والے ہوں گے۔ مقسطا ! انصاف قائم کرنے والے ہوں گے اور اماما عادلا ، ادل امام بن کر آئیں گے۔ خلافت بھی آپ کے ہاتھ میں ہوگی اور آپ عادل خلیفہ ہوں گے۔ فیکسر الصلیب ، آپ صلیب کو توڑیں گے اب صلیب کا نشان عیسائیوں کے باطل عقیدہ کی نشانی ہے۔ ان کا ایمان ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اس صلیب پر لٹک کر لوگوں کا کفارہ بن گئے۔ اسی لیے وہ اس کی پوجا کرنے لگے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ صلیب بت ہے اور شرک کی نشانی ہے۔ گلے میں لٹکا کر اور گرجے میں رکھ کر اس کی تعظیم کی جاتی ہے ، جو اس کی پرستش کے مترادف ہے۔ حالانکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ سولی پر چڑھایا گیا ، اور نہ وہ ہلاک ہوئے۔ خنزیر کو قتل کرنے کا مطلب یہ ہے۔ کہ آپ عیسائیوں کو ذلیل کریں گے کیونکہ جب رومی بادشاہ نے عیسائیت قبول کی تو اس زمانے میں انہوں نے خنزیر کو حلال قرار ردیا۔ ورنہ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد تمام شریعتوں میں خنزیر حرام رہا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ کفار سے جزیہ وصول کرنے کی مدت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول تک ہے۔ چناچہ آپ کے دوبارہ نزول پر یہ مدت ختم ہوجائے گی اور آپ جزیے کو موقوف کردیں گے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اسلام کے سوا کوئی دین قبول نہیں کرینگے ، لہذا یا تو سب لوگ مسلمان ہوجائیں گے یا تہ تیغ ہوجائیں گے۔ صحیحین میں آتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بدترین دشمن یہودیوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ جس پتھر یا درخت کے پیچھے چھپنا چاہیں گے ، وہ پتھر یا درخت خود بول کر کہے گا کہ اے مسلمان ! دیکھ میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے۔ مسیح (علیہ السلام) کے دوبارہ نزول کے زمانے میں مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہوگی کہ کوئی شخص صدقہ و خیرات قبول نہیں کرے گا۔ ابو داود کی ایک روایت میں آتا ہے کہ ینزل عیسیٰ ابن مریم مریم عند المنارۃ والبیضاٗ شرقی دمشق۔ آپ دمشق سے مشرقی جانب سفید مینارے پر اتریں گے۔ وہ سفید مینار بیت المقدس میں ہے۔ جو دمشق سے بجانب مشرق ہے۔ علامات قیامت : حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے فرمایا قیامت سے پہلے دس بڑی نشانیاں ظاہر ہوں گی۔ ان میں سے ایک مسیح (علیہ السلام) کا نزول بھی ہے۔ اس کے علاوہ دجال کا خروج ، یاجوج ماجوج کا ظہور ، سورج کا مغرب کی جانب سے طلوع ، لوگوں کا زمین میں دھنسایا جانا ، آگ کا نکلنا اور دابۃ الارض وغیرہ بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔ حضرت حسن بصری کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ان عیسیٰ لم یمت۔ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) نے وفات نہیں پائی۔ فانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ ، کیونکہ وہ قیامت سے پہلے تمہاری طرف دوبارہ لوٹ کر آئیں گے۔ ابن ماجہ کی روایت میں معراج کے واقعہ کے متعلق آپ کا ارشاد مبارک ہے کہ جب قیامت کا تذکرہ ہوا ، تو سب انبیاء نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ قیامت کب آئیگی۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی یہی فرمایا۔ اما وجب تھا فلا یعلمھا الا اللہ۔ قیامت کے وقوع کے وقت کا سوائے اللہ کے کسی کو علم نہیں۔ مجھے تو اتنی بات بتائی گئی ہے کہ میں زمین پر اتروں گا اور دجال کو قتل کروں گا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرآن پاک میں جہاں یہ آیت آئی ہے۔ وانہ لعلم للساعۃ اس سے مراد یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کی نشانی ہیں اسی طرح آگے آیت آ رہی ہے۔ وان من اھل الکتب الا لیومنن بہ قبل موتہ۔ اہل کتاب میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ، مگر وہ مسیح (علیہ السلام) کی موت سے قبل ایمان لائے گا۔ اہل کتاب ابھی تک تو ایمان سے محروم ہیں ظاہر ہے کہ یہ پیش گوئی ان کے دوبارہ نزول کے بعد پوری ہوگی۔ اس وقت سے جتنے لوگ ہوں گے ، یا تو ایمان لے آئیں گے ، یا پھر ختم ہوجائیں گے۔ مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں یہ مختصر سی بات میں نے عرض کردی۔ تخلیق عیسیٰ پر مثال : حدیث شریف میں آتا ہے کہ وفد نجران کے عیسائیوں نے حضور ﷺ پر اعتراض کیا تھا۔ لم تسب صاحبنا۔ کہ آپ ہمارے صاحب یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو گالی کیوں دیتے ہیں۔ تقول لہ عبداللہ۔ آپ انہیں اللہ کا بندہ کہتے ہیں ، حالانکہ وہ تو خدا کے بیٹے ہیں اور الہ ہیں۔ نصاری کی اس احمقانہ بات پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم۔ اللہ کے ہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال آدم (علیہ السلام) جیسی ہے۔ یعنی جس طرح آدم (علیہ السلام) کا ماں باپ نہیں تھا ، اسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ بھی نہیں ہے۔ یہاں ماں تو موجود ہے ، آدم (علیہ السلام) کی ماں بھی نہیں ہے ، یہ تو یہودی اور عیسائی سب تسلیم کرتے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے مٹی سے پیدا کیا۔ بائبل اور قرآن دونوں کتابوں میں یہ آیات موجود ہیں۔ لہذا اگر تم آدم (علیہ السلام) کو ماں باپ کے وسیلہ کے بغیر مانتے ہو تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے کیوں تسلیم نہیں کرتے۔ گویا اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب و غریب چیز پر قیاس کرکے مسیح (علیہ السلام) کی پیدائئش کا مسئلہ سمجھایا۔ تو فرمایا بیشک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال اللہ کے نزدیک ایسی ہے جیسے آدم (علیہ السلام) کی مثال خلقہ من تراب۔ اسے اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر نفخ فیہ الروح اس میں جان ڈالی۔ قرآن پاک میں خشک مٹی اور گارے کا ذکر بھی آتا ہے گائے میں جب خمیر پیدا ہوتا ہے تو وہ گل سر جاتا ہے۔ یہ وہ عنصر (Element) ہے جس سے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق ہوئی۔ اسے قرآن میں صلصال اور حما مسنون بھی کہا گیا ہے۔ اور پھر یہ بھی ذکر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا فرما کر اپنے دست قدرت سے اس میں روح ڈالی۔ ثم قال لہ کن فیکون ۔ پھر اسے کہا ہواجاؤ، تو وہ کامل انسان ہوگیا۔ آدم (علیہ السلام) کامل انسان تھے۔ عقلمند ایسے کہ نبی سے زیادہ کوئی شخص عقلمند ، ذہین اور دانا نہیں ہوسکتا۔ ڈارون کا نظریہ بالکل باطل ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اولین انسان کی تخلیق بطور بندر ہوئی ، پھر آہستہ آہستہ ترقی کرکے انسان بن گیا۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ حضور نے فرمایا ، نبیا مکلما ، آدم (علیہ السلام) نبی مکلم تھے۔ نبی ہمیشہ کامل انسان ہوتا ہے۔ آدم (علیہ السلام) سب سے پہلے انسان اور نبی تھے۔ اور بالکل مکمل انسان تھے۔ سمجھانا یہ مطلوب ہے۔ کہ جب اللہ تعالیٰ بغیر ماں باپ کے مٹی سے انسان کی تخلیق کرلیتا ہے۔ تو عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا فرما دینا کون سی مشکل بات ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ لہذا عیسیٰ (علیہ السلام) عبداللہ یعنی اللہ کے بندے ہیں ، وہ خود الہ نہیں ہیں۔ فرمایا الحق من ربک ، حق وہ ہے جو تیرے پروردگار کی طرف سے ہے۔ فلاتکن من الممترین ، پس آپ شک کرنے والوں میں نہ ہوں ۔ یہ خطاب حضور ﷺ کو ہو رہا ہے۔ مگر بات سب کو سمجھائی جا رہی ہے کہ کسی مومن کو اس بات میں شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بندے ہیں۔ خداوند تعالیٰ نے آپ کو مریم جیسی کنواری عورت کے بطن سے پیدا فرمایا ، وہ الہ نہیں ہیں۔ اس حقیقت کے واضح ہوجانے کے باوجود اگر یہ لوگ جھگڑا کریں گے ، تو پھر آگے مباہلہ کا چیلنج بھی آ رہا ہے۔
Top