Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 110
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِیْنَ هَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَ صَبَرُوْۤا١ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : کہ فُتِنُوْا : ستائے گئے وہ ثُمَّ : پھر جٰهَدُوْا : انہوں نے جہاد کیا وَصَبَرُوْٓا : اور انہوں نے صبر کیا اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد لَغَفُوْرٌ : البتہ بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
پھر بیشک آپ کا پروردگار ان لوگوں کے حق میں جنہوں نے بعد اس کے کہ (سخت) آزمائش میں پڑچکے تھے ہجرت کی پھر جہاد کیا اور ثابت قدم رہے تو آپ کا پروردگار بیشک ان اعمال کے بعد بڑا مغفرت والا ہے، بڑا رحمت والا ہے،172۔
172۔ (جو مغفرت و رحمت تو نفس ایمان ہی پر مرتب کردیتا ہے، پھر ان اعمال شاقہ کے امتحان سے گزرنے پر مغفرت و رحمت کے درجات عالیہ وکاملہ کیوں نہ عنایت کردے گا) (آیت) ” للذین ھاجروا “۔ ہجرت سے مراد مدینہ تو ظاہرہی ہے۔ لیکن ہجرت حبشہ بھی سمجھی جاسکتی ہے۔ (آیت) ” بعد مافتنوا “ آزمائشوں سے کھلا ہوا اشارہ آغاز ظہور اسلام کے شداید شاقہ کی جانب ہے، نفس ابتلاء کفر بھی مراد ہوسکتا ہے۔ (آیت) ” جھدوا “۔ جہاد اپنے لغوی معنی میں ہر جہاد نفس پر شامل ہے۔ قتال اصطلاحی ہی کامرادف نہیں۔ (آیت) ” من بعدھا “۔ ضمیر اعمال سابقہ مذکورہ یعنی آزمائش میں پڑنے اور ہجرت اور جہاد اور ثابت قدمی کی طرف ہے۔ اے المذکورات من الفتنۃ والھجرۃ والجھاد والصبر (روح) سوال یہ اٹھایا گیا ہے، کہ سورة تو مکی ہے، پھر اس میں، ہجرت و جہاد کا ذکر کیسا ؟ لیکن اول تو ابن عطیہ کی روایت میں ہے کہ آیت مدنی ہے (اور مکی سورتوں میں مدنی آیتوں کی آمیزش کی مثالیں قرآن میں کثرت سے ہیں) اور ہجرت سے مراد، ہجرت حبشہ توبہ آسانی ہو ہی سکتی ہے، اور جہاد اپنے لغوی معنی (جدوجہد) میں۔ پھر ان سب کے علاوہ، صیغہ ماضی سے اخبار مستقبل کی مثالیں بھی قرآن میں شاذ نہیں۔
Top