Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 110
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِیْنَ هَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَ صَبَرُوْۤا١ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : کہ فُتِنُوْا : ستائے گئے وہ ثُمَّ : پھر جٰهَدُوْا : انہوں نے جہاد کیا وَصَبَرُوْٓا : اور انہوں نے صبر کیا اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد لَغَفُوْرٌ : البتہ بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
(پھر یقینا آپ کا رب ان لوگوں کے لیے جنھوں نے آزمائشوں میں ڈالے جانے کے بعد ہجرت کی، پھر جہاد کیا اور ثابت قدمی دکھائی تو ان باتوں کے بعد بیشک آپ ﷺ کا رب بڑا ہی بخشنے والا اور رحمت والا ہے۔
ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰھَدُوْا وَصَبَرُوْٓا لا اِنَّ رَبَّکَ مِنْ م بَعْدِھَا لَغَفُوْرٌرَّحِیْمٌ۔ (سورۃ النحل : 110) (پھر یقینا آپ کا رب ان لوگوں کے لیے جنھوں نے آزمائشوں میں ڈالے جانے کے بعد ہجرت کی، پھر جہاد کیا اور ثابت قدمی دکھائی تو ان باتوں کے بعد بیشک آپ ﷺ کا رب بڑا ہی بخشنے والا اور رحمت والا ہے۔ ) اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی تصویر سابقہ آیات کریمہ میں ان لوگوں کا انجام بیان ہوا جنھوں نے حیات دنیا کو حیات آخرت پر ترجیح دی۔ وہ خواہشاتِ نفس کی پیروی میں اس قدر اندھے ہوگئے کہ دنیا کی زندگی ان کا مقصود بن کر رہ گئی۔ دنیا کی دلچسپیاں اور دنیا کی بڑائیاں ان کا حاصل زندگی ٹھہریں۔ اولاً تو وہ ایمان کے قریب ہی نہیں آئے، اور اگر کبھی ایمان قبول کرکے مومنین کی صف میں شامل ہوگئے۔ تو جب بھی ایمان کی قیمت دینا پڑی اور اس راستے کی آزمائشوں سے واسطہ پڑا تو وہ ایمان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بدترینِ خلائق ہیں۔ ان کا انجام یقینا اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا کہ وہ آخرت میں ناکامیوں اور حسرتوں کی تصویر ہوں گے۔ لیکن اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کے محبوب وہ لوگ ہیں کہ انھوں نے سوچ سمجھ کر ایمان قبول کیا اور پھر اس راہ میں آنے والی مشکلات کو اس راہ کی سنتیں سمجھ کر انگیخت کیا۔ بڑی سے بڑی آزمائش کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا پیغام سمجھا۔ دشمن نے ہر موقع پر اذیتیں پہنچا کر حوصلوں کو شکست کرنا چاہا لیکن وہ کبھی کامیاب نہ ہوسکے۔ لیکن جب ان کی تکلیفیں جان کنی تک پہنچ گئیں تو پھر ہجرت کے جانگسل مراحل کو خندہ پیشانی سے قبول کیا تاکہ اسلامی زندگی کے اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ ہجرت کے لیے وطن چھوڑنا پڑا، مال و دولت کی قربانی دینی پڑی، پرائے دیس کا غیریقینی مستقبل اور ماحول اختیار کرنا پڑا۔ اجنبی لوگوں میں زندگی کے نئے امکانات تلاش کرنا پڑے۔ لیکن یہ سب کچھ نہایت خوشی سے برداشت کیا کیونکہ انھی قربانیوں کے صلے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی امید کی جاسکتی ہے۔ پھر ایک وقت آیا جب حق و باطل کا معرکہ شروع ہوگیا۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے تعلق کی خاطر اور دین سے وابستگی کے لیے اپنا وطن چھوڑنے سے دریغ نہ کیا تھا اب یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ حق و باطل کی کشمکش میں حق کی سربلندی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے سے تأمل کرتے۔ چناچہ انھوں نے مال سے بھی جہاد کیا اور جان سے بھی جہاد کیا۔ اس راستے میں جس چیز کا بھی مطالبہ ہوا اسے پیش کرنے میں ذرا تأمل سے کام نہ لیا۔ اور اس راستے میں جو مصیبتیں آئیں نہایت خندہ پیشانی سے انھیں قبول کیا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور دین کی سربلندی کے لیے یہی وہ سرمایہ ہے جو ہمیشہ مطلوب ہوتا ہے۔ جب یہ سرمایہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کردیا جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید و نصرت اور رحمت و مغفرت میں دیر نہیں ہوتی۔ چناچہ یہاں بھی آیت کریمہ کے آخر میں یہی فرمایا گیا کہ میرے بندوں نے چونکہ یہ سب کچھ میرے راستے میں جھونک ڈالا ہے، اب انھیں بتا دیجیے کہ آپ ﷺ کا رب ان کے لیے بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
Top