Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 49
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَاۤ اَنَا لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ
قُلْ : فرما دیں يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنَا : میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : ڈرانے والا آشکارا
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ لوگو! میں تم کو کھلم کھلا نصیحت کرنے والا ہوں
قل یایہا الناس انما انا لکم نذیر مبین۔ (اے محمد ﷺ ! کفار مکہ سے آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف تم کو کھول کر (اللہ کے عذاب سے) ڈرانے والا ہوں۔ یعنی عذاب لے آنے پر قادر نہیں ہوں واضح الفاظ میں وعید عذاب سنانا میرا کام ہے۔ ( رسول اللہ ﷺ بشیر بھی تھے اور نذیر بھی پھر صرف نذیر ہونے کا کیوں حکم دیا گیا) مشرکین ہی عذاب آنے کی جلدی مچاتے تھے اور خطاب کا رخ بھی انہی کی طرف تھا اہل ایمان کے ثواب کا ذکر تو کافروں کے غصہ اور بھڑکانے والا تھا اس لئے صرف نذیر کا ذکر کیا نذیر کے ساتھ بشیر نہیں فرمایا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بشارت سے تخویف مقدم ہوتی ہے بشارت تو صرف فرماں برداروں کے لئے ہوتی ہے اور تخویف دونوں فریقوں کے لئے عام ہے۔ صحیحین میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ نے جو (پیام) مجھے دے کر بھیجا ہے اس کی اور میری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے اپنی قوم کو آکر (متنبہ کیا اور) کہا میں نے اپنی آنکھوں سے (دشمن کے) لشکر کو (پہاڑ کے اس طرف) دیکھا ہے اور میں تمہارے لئے نذیر عریاں ہوں پس جلدی کرو۔ جلدی کرو (اور بھاگو بھاگو) کچھ لوگوں نے اطلاع دینے والے کی بات مان لی اور رات سے ہی چل دیئے اور فرصت کو غنیمت سمجھ کر روانہ ہوگئے اور بچ گئے اور کچھ لوگوں نے اس کے کہے کو سچا نہ جانا اور صبح تک وہ اپنی جگہ پر رہے نتیجہ یہ نکلا کہ صبح کو (دشمن کے) لشکر نے ان پر حملہ کردیا سب کو غارت کردیا اور ان کی جڑ اکھاڑ کر رکھ دی۔ یہی مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے میرا کہا مانا اور جو کچھ میں لایا ہوں اس پر چلے اور ان لوگوں کی جنہوں نے میرا کہا نہ مانا اور جو حق میں لے کر آیا ہوں اس کی انہوں نے تکذیب کی۔
Top