Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 7
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ١ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ١ؐۚ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ١ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ١ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا١ۚ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
ھُوَ
: وہی
الَّذِيْٓ
: جس
اَنْزَلَ
: نازل کی
عَلَيْكَ
: آپ پر
الْكِتٰبَ
: کتاب
مِنْهُ
: اس سے (میں)
اٰيٰتٌ
: آیتیں
مُّحْكَمٰتٌ
: محکم (پختہ)
ھُنَّ
: وہ
اُمُّ الْكِتٰبِ
: کتاب کی اصل
وَاُخَرُ
: اور دوسری
مُتَشٰبِهٰتٌ
: متشابہ
فَاَمَّا
: پس جو
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
فِيْ
: میں
قُلُوْبِهِمْ
: ان کے دل
زَيْغٌ
: کجی
فَيَتَّبِعُوْنَ
: سو وہ پیروی کرتے ہیں
مَا تَشَابَهَ
: متشابہات
مِنْهُ
: اس سے
ابْتِغَآءَ
: چاہنا (غرض)
الْفِتْنَةِ
: فساد۔ گمراہی
وَابْتِغَآءَ
: ڈھونڈنا
تَاْوِيْلِهٖ
: اس کا مطلب
وَمَا
: اور نہیں
يَعْلَمُ
: جانتا
تَاْوِيْلَهٗٓ
: اس کا مطلب
اِلَّا
: سوائے
اللّٰهُ
: اللہ
وَالرّٰسِخُوْنَ
: اور مضبوط
فِي الْعِلْمِ
: علم میں
يَقُوْلُوْنَ
: کہتے ہیں
اٰمَنَّا
: ہم ایمان لائے
بِهٖ
: اس پر
كُلٌّ
: سب
مِّنْ عِنْدِ
: سے۔ پاس (طرف)
رَبِّنَا
: ہمارا رب
وَمَا
: اور نہیں
يَذَّكَّرُ
: سمجھتے
اِلَّآ
: مگر
اُولُوا الْاَلْبَابِ
: عقل والے
وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے ہیں
ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ : وہی ہے جس نے آپ ﷺ کے اوپر کتاب یعنی قرآن اتارا۔ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ : جس کی کچھ مضبوط آیات ہیں یعنی ایسی محکم آیات ہیں جن کو زبان داں شخص سن کر اشتباہ میں نہیں رہتا۔ نہ ظاہری الفاظ اس کے لیے شبہ آفریں ہوتے ہیں نہ مفہوم کلام نہ مقتضائے کلام خواہ غور کرنے کے بغیر ہی مفہوم اور مقتضاء سمجھ میں آجاتا ہو جیسے آیت : قل تعالو اتل ما حرم ربکم علیکم اور آیت : و قضٰی ربک ان لا تعبدوا الا ایاہ اور آیت : لیس کمثلہ شی و ھو السمیع البصیر یا غور و تامل کے بعدکلام کا مقتضاء سمجھ میں آجاتا ہو۔ شارع کی طرف سے بیان کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ جیسے آیت : السارق والسارقۃ۔۔ پر قدرے غور کرنے کے بعد خود ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ جیب تراش کو یہ آیت شامل ہے کیونکہ چوری کا معنی جیب تراشی میں موجود ہے بلکہ جیب تراشی کا مفہوم چوری کے مفہوم سے کچھ زائد ہی ہے (جیب تراش پرایا مال پوشیدہ طور پر لیتا ہے اور مالک مال کے پاس سے بہت ہی چھپ چھپا کرلیتا ہے اوّل چوری کا مفہوم ہے اور دوسرا جیب تراشی کا) لیکن کفن چور اس آیت کے حکم میں نہیں ہے کیونکہ کفن نہ میت کی ملک ہوتا ہے کیونکہ مردہ دنیوی اعتبار سے مٹی کی طرح ہے اور میت کے وارثوں کی ملک بھی نہیں ہے کیونکہ وارث کفن کے علاوہ دوسرے مال کے مالک ہوتے ہیں۔ ایک اور آیت بھی اسی طرح کی ہے اللہ نے فرمایا ہے : وارجلکم الی الکعبین ٹخنوں تک اپنے پاؤں دھوؤ چونکہ اس آیت میں دھونے کی آخری حد مذکور ہے اس لیے ظاہر ہے کہ ارجلکم کا عطف وجوھکم یا ایدیکم پر ہوگا (ورنہ لازم آئے گا کہ ٹخنوں تک مسح کی حد مقرر کی جائے جو غلط ہے 1 ) ایک اور آیت ہے : ثَلٰثَۃَ قُرُوْءٍ 2 غور کرنے کے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ تین حیض مراد ہیں طہر مراد ہونے کی صورت میں تین کا عدد پورا متحقق نہ ہوگا کیونکہ طلاق طہر میں ہی مشروع ہے اب اگر طلاق والے طہر کو بھی مدت عدت میں شمار کیا جائے گا تو تین طہر پورے نہ ہوں گے اور شمار نہ کیا جائے گا تو تین طہر سے زائد ہوجائیں گے اس لیے تین حیض مراد ہیں ایک اور آیت ہے : قَوَارِیْرَ مِنْ فِضَّۃٍ غور کرنے سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ قواریر سے وہ ظروف مراد ہیں جو چاندی کے ہونگے مگر چمک اور صفائی میں شیشہ کی طرح ہوں گے۔ ہم نے محکم کے معنی کی یہ توضیح حضرت ابن عباس ؓ کے قول کی روشنی میں کی ہے اس توضیح پر ظاہر نص مفسر محکم خفی مشکل سب ہی محکمات کے اقسام قرار پاتے ہیں۔ محمد بن جعفر بن زبیر نے کہا کہ محکم وہ بیان ہوتا ہے جس کا صرف ایک ہی معنی محتمل ہوتا ہے دوسرے معنی کا احتمال ہی نہیں ہوتا۔ بعض نے کہا کہ محکم وہ بیان ہے جس کا معنی معروف ہو اور اس کی دلیل بالکل واضح ہو۔ مؤخر الذکر دونوں تفسیروں کی مراد بھی وہی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے۔ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ : آیات محکمہ اصول فرائض ہیں۔ قاموس میں ہے ام ماں کو کہتے ہیں ہر چیز کی ام اس کی اصل اور سہارا ہوتی ہے۔ ام القوم : سردار قوم۔ ہر شے کی ام وہ ہے جو مختلف اشیاء کا مجموعہ ہو۔ میں (مفسر) کہتا ہوں اس جگہ لفظ کتاب بمعنی مکتوب ہے اور مکتوب سے مراد ہے فرض کردہ جیسے آیت : کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَام میں کُتِبَ کا معنی ہے فرض کیا گیا۔ اس صورت میں ام الکتاب میں اضافت بتقدیر لام ہوگی یعنی محکمات وہ ہیں جو فرائض مامورات و منہیات کی اصول ہیں ‘ یا الکتاب سے قرآن مراد ہے اس صورت میں ام الکتاب کی اضافت یا بتقدیر مِن ہوگی یا بتقدیر لام اوّل شق پر یہ معنی ہوں گے کہ محکمات احکام قرآن کے اصول ہیں انہی سے احکام اخذ کئے جاتے ہیں۔ شارع کے (مزید) بیان کی ضرورت نہیں رہتی۔ دوسری شق پر یہ معنی ہوں گے کہ محکمات قرآن کا مدار اور سہارا ہیں تمام آیات کی سردار ہیں دوسری آیات کی ان کو ضرورت نہیں بلکہ دوسری آیات کو انہی سے ملا کر مطلب نکالا جاتا ہے۔ آیات محکمات کا تعدد چاہتا تھا کہ امہات الکتاب (بصیغۂ جمع) کہا جاتا لیکن تمام محکمات کا مجموعہ ایک ماں کی طرح ہے احکام مجموعہ کا استخراج مجموعہ محکمات سے ہوتا ہے ہر ایک سے نہیں اس لیے مفرد کا صیغہ استعمال کیا۔ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ : اور کچھ دوسری آیات متشابہات ہیں جب تک شارع کی طرف سے محکم عبارت میں ان کا بیان نہ ہو کوئی لغت شناس اور واقف زبان غور اور تامل کرنے کے بعد بھی ان کی مراد نہیں سمجھ سکتا اب اگر شارع کی طرف سے مراد کا بیان اور وضاحت ہوجائے تو اصول فقہ کی اصطلاح میں ایسے متشابہ کو مجمل کہتے ہیں جیسے صلوٰۃ، زکوٰۃ، حج، عمرہ اور آیت ربوا وغیرہ اور اگر شارع کی طرف سے بیان وتعلیم نہ ہو تو ایسے متشابہ کو اصول فقہ کی اصطلاح میں متشابہ کہتے ہیں۔ اس قسم کا تشابہ انہی امور میں ہوسکتا ہے جن سے عمل کا تعلق نہ ہو ورنہ تکلیف ما لا یطاق لازم آئے گی جیسے سورتوں کے شروع میں حروف مقطعات ہیں۔ یا آیت : ید اللہ فوق ایدیھم اور آیت الرحمٰن علی العرش استویٰ ہے اس طرح کے متشابہات کا علم بعض اہل عرفان کو الہام اور تعلیم الٰہی کے ذریعہ سے کبھی ہوجاتا ہے جس طرح حضرت آدم کو اللہ نے تمام اسماء کا علم عطا فرمایا تھا۔ مشکوٰۃ نبوت سے خوشہ چینی شرح صدر کے بعد ہی ممکن ہے اور ایسی خوشہ چینی کبھی کبھی ہوتی ہے اور اسی وقت ہوتی ہے جبکہ زبان اور لغت سے تعلیم و تعلم ممکن نہ ہو کیونکہ ان حقائق کے لیے کوئی لفظ موضوع ہی نہیں ہے اس لیے عوام کا علمی خزانہ ان سے خالی ہے جن امور و احکام سے اعمال تکلیفیہ کا تعلق ہے۔ ان کے متعلق تاخیر بیان جائز نہیں تاکہ تکلیف بالمحال لازم نہ آئے۔ ایک شبہ آیت : الرکتاب احکمت ایاتہ بتارہی ہے کہ تمام آیات محکم ہیں لیکن دوسری آیت میں : کتابا متشابھا آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پورا قرآن متشابہ ہے اور اس جگہ بعض آیات کو محکم اور بعض کو متشابہ قرار دیا ہے یہ اختلاف بیان کیوں ہے۔ ازالہ پورے قرآن کے محکم ہونے کا یہ معنی ہے کہ تمام قرآن فساد معنی اور ضعف عبارت سے محفوظ ہے ایسا محکم ہے کہ کوئی اس پر نکتہ چینی نہیں کرسکتا۔ نہ مقابلہ کرسکتا ہے اور پورے قرآن کے متشابہ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ حسن اور کمال میں سارا قرآن ایک جیسا ہے تمام آیات باہم حسن میں متشابہ ہیں اور اس جگہ تفریق و تقسیم سے مراد یہ ہے کہ بعض آیات کے معانی واضح ہیں (کہ مراد کا تعدد ممکن ہی نہیں) اور بعض کے خفی ہیں (کہ بغیر شارع کے بیان کے معلوم نہیں ہوسکتے) فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ : پس جن لوگوں کے دلوں میں حق سے کجی ہے۔ ربیع نے کہا آیت میں اہل نجران کا کا عیسائی وفد مراد ہے۔ اہل وفد نے رسول اللہ سے کہا تھا کیا آپ عیسیٰ کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ نہیں کہتے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں کہتے۔ اہل وفد نے کہا بس ہمارے لیے یہی کافی ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ کلبی نے کہا یہودی مراد ہیں جنہوں نے ابجد کے حساب سے اس امت کی مدت بقاء کا علم حاصل کرنا چاہا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ حیی بن اخطب اور کعب بن اشرف وغیرہ کا ایک یہودی گروہ خدمت گرامی میں حاضر ہوا حیی نے کہا ہم کو اطلاع ملی ہے کہ آپ پر الم نازل ہوئی ہے ہم آپ کو قسم دے کر دریافت کرتے ہیں کہ کیا اللہ نے آپ پر اس کو نازل فرمایا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ہاں ! حیی بولا اگر یہ بات صحیح ہے تو میں اس کو آپ کی امت کی مدت زندگی خیال کرتا ہوں اور یہ کل مدت 71 سال ہوگی کیا اس کے علاوہ کچھ اور بھی نازل ہوا ہے حضور ﷺ نے فرمایا : ہاں۔ المص (بھی نازل ہوا ہے) حیی بولا اب تو بہت مدت ہوگئی۔ 161 سال ہوگئے کیا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : ہاں الر ہے بولا اس کی شمار بھی زیادہ ہے اس کی تعداد دو سو اکتیس ہے کیا اور بھی کچھ اترا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : ہاں المر ہے کہنے لگا یہ بھی بہت مدت ہے 271 سال کی ہے آپ نے ہمارے لیے گڑ بڑ کردی ہم نہیں سمجھتے کہ زیادہ مدت قائم کریں یا کم مدت ہم ایسی باتوں کو نہیں مانتے اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ابن جریح نے کہا آیت میں منافق مراد ہیں اور حسن کے نزدیک خوارج مراد ہیں امام احمد وغیرہ نے حضرت ابو امامہ کی روایت سے ارشا دنبوی اسی طرح نقل کیا ہے۔ قتادہ جب یہ آیت پڑھتے تھے تو کہتے تھے اگر یہ لوگ حروریہ اور سابیہ گروہ نہیں تو میں نہیں جانتا کہ اور کون لوگ ہیں بعض لوگوں کے نزدیک تمام بدعتی مراد ہیں صحیح یہ ہے کہ لفظ عام ہے مذکورہ بالا تمام گروہ اس میں داخل ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے آیت : ھو الذی انزل علیک الکتاب منہ اٰیات محکمات ھُنَّ ام الکتاب و اخر متشابھات اولوالالباب تک تلاوت فرمائی اور فرمایا : اگر تم ایسے لوگ دیکھو کہ متشابہات قرآن کے پیچھے پڑے ہیں تو (سمجھ لینا کہ) یہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے اور ان سے احتیاط رکھنا۔ (رواہ البخاری) حضرت ابو مالک ؓ اشعری کا بیان ہے کہ میں نے خود سنا رسول اللہ فرما رہے تھے مجھے اپنی امت کے متعلق صرف تین باتوں کا اندیشہ ہے ان تین باتوں میں سے حضور ﷺ نے ایک بات یہ بیان فرمائی کہ بعض (لوگ) کتاب کھول کر متشابہات کی تاویلیں کرنے کے طلب گار ہوں گے حالانکہ ان کی تاویل سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا پکے علم والے تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارا اس (قرآن) پر ایمان ہے یہ سب ہمارے مالک کی طرف سے آیا ہے اور نصیحت پذیر صرف اہل دانش ہی ہوتے ہیں۔ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ : یعنی ٹیڑھے دلوں والے ‘ قرآنی متشابہات کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اہل بدعت اپنی نفسانی خواہش کے زیر اثر متشابہ کے اس معنی سے وابستگی اختیار کرتے ہیں جو ان کے مسلک کے موافق ہوتا ہے اور الفاظ میں اس معنی کا کچھ احتمال ہوتا ہے نہ محکم آیات و احادیث کی طرف رجوع کرتے ہیں نہ اس معنی پر کلام کو محمول کرتے ہیں جو دوسرے محکمات کے مطابق ہوتا ہے یا یہ مراد ہے کہ متشابہات پر ایمان رکھتے ہوئے اور ان کی مراد کو تسلیم کرتے ہوئے سکوت نہیں اختیار کرتے (بلکہ اپنی طرف سے تاویلیں کرتے ہیں) پس بقدر امکان متشابہات کو محکمات کی طرف لوٹانا واجب ہے تاکہ مجمل کی مراد واضح ہوجائے اور اس پر عمل کیا جاسکے۔ جیسے نماز زکوٰۃ اور سود وغیرہ 1 یا متشابہات کی تاویل اور تعیین معنی کو چھوڑ کر خاموشی اختیار کرلی جائے اور اس بات پر ایمان رکھا جائے کہ ان سے جو کچھ شارع کی مراد ہے وہ حق ہے ہم اس کو مانتے ہیں۔ جب اجماع امت اور احادیث متواترہ کی نصوص سے ثابت ہوچکا ہے کہ چودھویں کے چاند کی طرح قیامت کے دن اہل ایمان کو دیدار الٰہی ہوگا تو اس پر ایمان رکھنا اور یہ کہنا لازم ہے کہ آیت : وجوہ یومئذٍ ناضرہ الی ربھا ناظرۃ میں رویت اور نظر سے مراد آنکھوں سے دیکھنا ہے ہاں محکم نص سے اگر معنی کی تعیین نہ ہوئی ہو جیسے : ید اللہ فوق ایدیھم اور الرحمن علی العرش استوی میں (دست خدا اور استواء بالائے عرش کے معنی کی تعیین کسی محکم آیت یا متواتر حدیث میں نہیں آئی ہے) تو ایسی آیات کے معنی میں سکوت اختیار کیا جائے لیکن ان پر ایمان رکھنا لازم ہے اور ظاہری معنی پر ایسے متشابہ الفاظ کو محمول نہ کیا جائے اور محکم آیت : لیس کمثلہ شیء کے معنی پر عمل کرتے ہوئے کہہ دیا جائے کہ اللہ ممکنات کی تمام صفات سے پاک ہے نیز مقطعات کی تفسیر میں خواہ مخواہ تکلیف نہ اٹھائی جائے۔ اس کی اجازت نہیں ہے۔ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ : یعنی وہ متشابہات کے پیچھے اس غرض سے پڑتے ہیں کہ مسلمانوں میں دین کی طرف سے فتنہ بپا کردیں، شک ڈال دیں، اشتباہ پیدا کردیں اور محکم کا متشابہ سے مقابلہ کرکے محکم کو توڑ دیں۔ 1 منافقوں کا یہی وتیرہ ہوتا ہے چناچہ روایت میں آیا ہے کہ بعض یہودیوں نے جب اسلام کی شوکت اور بلندی دیکھی تو جل گئے اور یقین کرلیا کہ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کی یہ امداد ان کے دین کی وجہ سے ہو رہی ہے لہٰذا دوغلے بن گئے ظاہر میں اسلام لے آئے اور متشابہات کی غلط توجیہات تفسیری کرنے لگے اور مذاہب باطلہ کی ایجاد کرنی شروع کردی چناچہ حروریہ اور معتزلہ اور رافضی وغیرہ بن گئے وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِهٖ : اس کا عطف ابتغاء الفتنۃ پر ہے یعنی وہ اپنی خواہش کے موافق متشابہات کی تفسیر کرنے کے لیے ان کے پیچھے پڑتے ہیں۔ تفسیر متشابہات کی طلب کبھی مبنی بر جہالت ہوتی ہے جیسا کہ بعض متاخرین اہل بدعت نے کیا ہے البتہ متقدمین منافق اکثر مذکورہ بالا دونوں وجوہ کی وجہ سے ہی متشابہات کی تفسیر کے در پے ہوا کرتے تھے۔ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ : حالانکہ متشابہات کی اصلی مراد سے واقف سوائے خدا کے کوئی نہیں۔ یعنی عربی زبان کو جاننا متشابہات کی مراد جاننے کے لیے کافی نہیں۔ بغیر خدا کے واقف کئے ہوئے کوئی نہیں جان سکتا ہماری اس توضیح پر عمل متشابہات کا اللہ میں حصراضافی ہوگا حقیقی نہ ہوگا (یعنی یہ مطلب نہ ہوگا کہ اللہ کے سوا کوئی انسان یا فرشتہ متشابہات کی مراد سے واقف ہی نہیں ہوسکتا بلکہ یہ مطلب ہوگا کہ خدا کی طرف سے واقف کئے بغیر محض عربی دانی اور قیاس آرائی کی وجہ سے کوئی شخص ان کی صحیح مراد سے واقف نہیں ہوسکتا) لہٰذا آیت اس بات پر دلالت نہیں کر رہی ہے کہ رسول اللہ اور آپ کے بعض خصوصی کامل امتی بھی متشابہات کے معنی نہیں جانتے۔ جیسا کہ ایک اور آیت میں آیا ہے : لَا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللہ آسمانوں اور زمینوں میں کوئی بھی اللہ کے سوا غیب نہیں جانتا۔ (یہ بھی حصر اضافی ہے یعنی بغیر خدا کی طرف سے واقف بنائے ہوئے کوئی بھی از خود غیب سے واقف نہیں) ہم نے حصر کو اضافی اس لیے قرار دیا کہ اللہ نے خود فرما دیا ہے : ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ اس آیت کا تقاضا ہے کہ اللہ کی طرف سے قرآن کے محکم و متشابہ کا بیان رسول اللہ کے لیے ہونا لازم اور ضروری ہے۔ رسول اللہ کے لیے قرآن کا کوئی حصہ بھی بغیر بیان کے نہ رہنا چاہئے ورنہ خطاب بیکار ہوگا اور خلاف وعدہ لازم آئے گا۔ صحیح بات وہی ہے جو ہم نے سورة بقرہ کے اوّل میں لکھ دی ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے درمیان متشابہات ایک راز ہیں عام لوگوں کو ان کا علم عطا کرنا مقصود ہی نہیں ہے بلکہ ان کے لیے متشابہات کا علم ممکن ہی نہیں ہے۔ رسول اللہ اور آپ کے بعض کامل امتیوں کو ہی بتانا مقصود ہے اور اخص الخواص حضرات ہی علم لدنی کے ذریعہ سے ان سے واقف ہوتے ہیں اور علم لدنی کا حصول صرف بےکیف، ذاتی یا صفاتی معصیت کے سبب سے ہوتا ہے (تحصیل اور کسب اور غور و فکر سے نہیں ہوتا) ۔ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ : اور جو لوگ علم میں پکے اور جمے ہوئے ہیں کہ ان کو کوئی شک و شبہ لاحق ہی نہیں ہوتا یہ لوگ اہل السنت والجماعت ہیں جنہوں نے مضبوطی کے ساتھ قرآن و حدیث کے محکمات کو پکڑ لیا ہے اور قرآن مجید کی تفسیر میں صحابہ اور تابعین کے اجماع کی پیروی کی ہے اور متشابہات کو محکمات کی طرف لوٹا دیا ہے اور اپنی خواہشات اور نفسانی ملمع کاریوں کو ترک کردیا ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ : الراسخون فی العلم سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے۔ میں کہتا ہوں اس تخصیص کی کوئی وجہ نہیں اہل تصوف کہتے ہیں کہ راسخ فی العلم وہ لوگ ہیں جو نفس اور عناصر کو فناء کرکے خواہشات سے بالکل الگ ہوچکے ہیں۔ تجلیات ذاتیہ میں ایسے ڈوبے ہوئے ہیں کہ کوئی شبہ ان کو لاحق ہی نہیں ہوسکتا وہ کہتے ہیں کہ اگر نقاب ہٹا بھی دیا جائے تو جتنا یقین ہم کو ہوچکا ہے اس سے زیادہ نہ ہوگا (یعنی ہمارے یقین میں اضافہ کی گنجائش ہی نہیں ہے ہمارا ایمان عین مشاہدہ ہے ہم کو حق الیقین حاصل ہوچکا ہے) ۔ طبرانی وغیرہ نے حضرت ابو الدرداء ؓ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ سے راسخین فی العلم کے متعلق دریافت کیا گیا فرمایا : جو لوگ قسم کے پورے زبان کے سچے استقامت قلبی رکھنے والے اور شکم و شرمگاہ کو (حرام سے) بچانے والے ہیں وہ راسخین فی العلم میں سے ہیں میں کہتا ہوں یہ اوصاف صوفیہ کے ہیں۔ آیت کی ترکیب عبارت میں (حنفیہ (رح) اور شافعیہ (رح) کا اختلاف ہے ایک گروہ قائل ہے کہ والراسخون میں واؤ عطف کا ہے اس وقت آیت کا معنی یہ ہوگا کہ متشابہات کو اللہ جانتا ہے اور راسخ علماء بھی جانتے ہیں اس صورت میں آئندہ جملہ۔ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ : لا حالیہ ہوگا یعنی علماء راسخین یہ کہتے ہوئے متشابہات کا علم رکھتے ہیں کہ پورا قرآن ہمارے رب کا بھیجا ہوا ہے ہم اس پر ایمان لائے۔ اسی کی نظیر ہے۔ آیت : لِلْفُقَرَاءِ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ ۔۔ وَالَّذِیْن تَبَوَّءُ وَلدَّارَ وَالْاِیْمَانَ ۔ پھر فرمایا : وَالَّذِیْنَ جَاءُ وْ مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ ۔ (اس آیت میں بھی یقولون جملہ حالیہ ہے) یہ قول مجاہد اور ربیع کا ہے حضرت ابن عباس ؓ نے بھی فرمایا تھا کہ میں راسخین فی العلم میں سے ہوں (یعنی متشابہات کی تفسیر سے واقف ہوں) یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ مجاہد نے فرمایا : میں بھی متشابہ کے مرادی معنی جاننے والوں میں سے ہوں۔ اکثر علماء کا خیال ہے کہ والراسخون میں واؤ استیناف کلام کے لیے ہے گذشتہ کلام الا اللہ پر ختم ہوگیا یہاں سے نیا کلام شروع ہو یہ قول حضرت ابی بن کعب حضرت عائشہ ؓ اور حضرت عروہ بن زبیر ؓ کا ہے طاؤس کی روایت میں اس قول کی نسبت حضرت ابن عباس ؓ کی طرف بھی کی گئی ہے حسن بصری اور اکثر تابعین بھی اسی کے قائل ہیں۔ کسائی فراء اور اخفش کے نزدیک بھی یہی قول پسندیدہ ہے اس کی تائید حضرت ابن مسعود ؓ کی دوسری قراءت سے بھی ہوتی ہے جس میں : و ما یعلم تاویلہ کی جگہ اِنْ تَاوِیْلُہٗ اِلَّا عِنْدَ اللہ والراسخون فی العلم یقولون۔۔ آیا ہے (اس قراءت پر تو والراسخون کا عطف اللہ پر ہو سکنا ممکن ہی نہیں) نیز حضرت ابی بن کعب کی قراءت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جس میں آیت اس طرح آئی ہے : و یقول الراسخون فی العلم امنا بہ (اس قراءت پر بھی الراسخون کا عطف اللہ پر نہیں ہوگا) اسی لیے عمر بن عبد العزیز نے فرمایا تھا کہ تفسیر قرآن کے علم میں رسوخ رکھنے والوں کے علم کی یہ آخری حد آگئی کہ انہوں نے آمنا بہٖ کہہ دیا۔ كُلٌّ : سب۔ یعنی محکم متشابہ ناسخ منسوخ اور جس کی مراد سے ہم واقف ہیں وہ اور جس کی مراد سے ہم واقف نہیں وہ سب۔ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا : ہمارے رب کی طرف سے آیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ راسخین فی العلم کا حال ان لوگوں کے حال سے بالکل برعکس ہے جن کے دل خواہشات نفسانی کی وجہ سے ٹیڑھے ہوگئے ہیں اور وہ اپنے ہی خیال کے پیرو ہیں جب کوئی علمی چمک ان کے سامنے آجاتی ہے اور نص شریعت ان کے خیالات کے مطابق ہوجاتی ہے تو اس روشنی میں وہ (چند قدم) چل لیتے ہیں اور اس کو مان لیتے ہیں لیکن اگر نص قرآنی کی تاویل ان کو نہ سوجھی اور اندھیرا چھا گیا اور نصوص شریعت ان کے خیالات کے مطابق نہ ہوئیں تو متحیر ہو کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور نہیں مانتے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ یہ قول ظاہر آیت کے بھی مناسب ہے اور قواعد عربی کے بھی زیادہ مطابق ہے بغوی کی مراد یہ ہے کہ واؤ کو عاطفہ نہ قرار دینا اور الراسخون سے استیناف کلام ہونا قیاس نحوی کے زیادہ مطابق ہے کیونکہ علماء نحو کا اجماع ہے کہ نفی سے استثناء اثبات ہوتا ہے اور الراسخون میں الف لام استغراق کا ہے اب اگر واؤ کو عاطفہ کہا جائیگا تو یہ مطلب ہوجائیگا کہ متشابہات کو کوئی نہیں جانتا مگر اللہ اور تمام راسخین فی العلم یہ مطلب بدایت اور روایت دونوں کے خلاف ہے (نہ تمام راسخین کا عالم متشابہات ہونا روایۃً ثابت ہے نہ واقع میں ایسا ہے) ۔ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ : اور صرف سالم عقلوں والے ہی مضمون قرآن سے نصیحت اندوز ہوتے ہیں کیونکہ سلامتی عقل کا یہی تقاضا ہے کہ جس کا علم نہ ہو اسکے علم کو دانا بینا متکلم کے ہی سپرد کردیا جائے (نہ جاننے کے باوجود جاننے کے مدعی بن کر) جہل مرکب کی دلدل میں پھنسنا اور وادی گمراہی میں سرگرداں رہنا خلاف دانش ہے۔ بعض اکابر کا قول ہے کہ میں علم کا آدھا حصہ بھی نہیں جانتا۔
Top