Tafseer-e-Mazhari - Az-Zumar : 64
قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّیْۤ اَعْبُدُ اَیُّهَا الْجٰهِلُوْنَ
قُلْ : فرمادیں اَفَغَيْرَ اللّٰهِ : تو کیا اللہ کے سوا تَاْمُرُوْٓنِّىْٓ : تم مجھے کہتے ہو اَعْبُدُ : میں پرستش کروں اَيُّهَا : اے الْجٰهِلُوْنَ : جاہلو (جمع)
کہہ دو کہ اے نادانو! تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں غیر خدا کی پرستش کرنے لگوں
قل افغیر اللہ تامرونی اعبد ایھا الجھلون آپ (ان کے جواب میں) کہہ دیجئے کہ اے جاہلو ! کیا پھر بھی تم مجھ کو غیر اللہ کی عبادت کا مشورہ دیتے ہو ؟ بیہقی نے دلائل میں حسن بصری کی روایت سے بیان کیا ہے کہ مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا تھا : محمد ! ﷺ تم اپنے باپ دادا کو گمراہ قرار دیتے ہو ؟ اس پر آیت مذکورہ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ تک نازل ہوئی۔ بغوی نے مقاتل کا بیان نقل کیا ہے کہ مکہ کے کافروں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے آباؤ اجداد کے مذہب پر واپس آنے کی دعوت دی تھی ‘ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ اَفَغَیْرَ میں ہمزہ انکاری ہے اور فَ کا عطف محذوف پر ہے اور غَیْر ‘ اَعْبُد کا مفعول ہے اور تَاْمُرُوْٓنِّیْ جملۂ معترضہ ہے۔ محل انکار غیر اللہ کا لفظ ہے ‘ اسلئے فعل پر اس کو مقدم کردیا گیا ہے) یعنی اہمیت کی وجہ سے مفعول کو فعل سے پہلے ذکر کردیا) مطلب اس طرح ہوگا : کیا میں کفر کروں اور غیر اللہ کی عبادت کروں ‘ تم مجھے (اس کا) مشورہ دے رہے ہو ؟
Top