Tafseer-e-Mazhari - Al-Ghaafir : 45
فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِۚ
فَوَقٰىهُ : سو اسے بچالیا اللّٰهُ : اللہ نے سَيِّاٰتِ : بُرے مَا مَكَرُوْا : داؤ جو وہ کرتے تھے وَحَاقَ : اور گھیر لیا بِاٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والوں کو سُوْٓءُ الْعَذَابِ : بُرا عذاب
غرض خدا نے موسیٰ کو ان لوگوں کی تدبیروں کی برائیوں سے محفوظ رکھا اور فرعون والوں کو برے عذاب نے آگھیرا
فوقہ اللہ سیات ما مکروا وحاق بال فرعون سواء العذاب اس کے بعد اللہ نے اس کو فرعون اور فرعونیوں کی ضرر رساں تدبیروں سے محفوظ رکھا اور فرعون (اور اس) کے پیروؤں (یعنی کافروں) پر برا عذاب نازل ہوا۔ فَوَقٰہُ سے پہلے چند جملے محفوظ ہیں ‘ پوری عبارت اس طرح تھی : فرعونیوں نے اس کو قتل کرنا چاہا ‘ مگر وہ وہ بھاگ گیا۔ فرعون نے اس کو پکڑنے کیلئے اپنے آدمیوں کو بھیجا ‘ لیکن اللہ نے اس کو محفوظ رکھا۔ وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ یعنی فرعون اور فرعونیوں پر برا تکلیف دہ عذاب آ نازل ہوا۔ فرعون کا ذکر کرنا بیکار تھا ‘ کیونکہ وہ تو عذاب کا مستحق سب سے زیادہ تھا ‘ اسلئے اس کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ سُوْٓءُ الْعَذَاب یعنی دنیا میں پانی میں غرق کردیا اور مرنے کے بعد دوزخ میں ڈال دیا۔ بعض اہل تفسیر کا قول ہے کہ آل فرعون سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو فرعون نے عبدمؤمن کی گرفتاری کیلئے بھیجا تھا ‘ اس صورت میں سوء العذاب سے مراد ہوگا عذاب قتل۔ عبدمؤمن بھاگ کر ایک پہاڑ پر چلا گیا ‘ لوگوں نے اس کا پیچھا کیا اور پہاڑ پر چڑھ گئے ‘ جا کر دیکھا تو اس کو نماز میں مشغول پایا اور چاروں طرف گھیرا ڈال لیا۔ صف بستہ جنگلی درندے اسکی حفاظت کر رہے تھے ‘ مجبور ہو کر لوٹ آئے ‘ اس جرم میں فرعون نے ان کو قتل کرا دیا۔
Top