Tafseer-e-Mazhari - Al-Ghaafir : 44
فَسَتَذْكُرُوْنَ مَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ١ؕ وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ
فَسَتَذْكُرُوْنَ : سو تم جلد یاد کروگے مَآ اَقُوْلُ : جو میں کہتا ہوں لَكُمْ ۭ : تمہیں وَاُفَوِّضُ : اور میں سونپتا ہوں اَمْرِيْٓ : اپنا کام اِلَى اللّٰهِ ۭ : اللہ کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ : دیکھنے والا بندوں کو
جو بات میں تم سے کہتا ہوں تم اسے آگے چل کر یاد کرو گے۔ اور میں اپنا کام خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ بےشک خدا بندوں کو دیکھنے والا ہے
فستذکرون ما اقول لم واوفض امر الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد آگے چل کر تم میرے بات کو یاد کرو گے۔ اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ بلاشبہ سب بندوں کا نگراں ہے۔ جو لوگ بندۂ مؤمن کو بت پرستی کی طرف بلاتے ہیں ‘ ان کی تردید میں اس نے یہ (پرزور مدلل) تردید کی ‘ یعنی جس چیز کی پرستش کی تم مجھے دعوت دے رہے ہو ‘ یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس صورت میں لَا جَرَمَ میں لا نافیہ ہوگا ‘ جس سے دعوت کفار کی نفی ہوجائے گی اور جَرَمَ فعل ہے جس کا معنی ہے حَقّ (ثابت اور صحیح ہے یہ بات) یعنی تم جو مجھے بتوں کی پوجا کی دعوت دے رہے ہو اس کا دونوں جہان میں بےاصل اور ہیچ ہونا یقینی ہے ‘ کیونکہ یہ (بےعقل) جمادات ہیں ‘ نہ دنیا میں کسی کو اپنی پرستش کی طرف بلاتے ہیں ‘ نہ آخرت میں اپنے پرستاروں کا ساتھ دیں گے بلکہ ان پجاریوں سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ان کی دعوت کا قابل قبول نہ ہونا یقینی ہے ‘ یا ان کی دعوت قبول نہ ہونا یقینی ہے۔ سدی نے کہا : یہ بت کسی کیلئے نہ دنیا میں دعا کرتے ہیں ‘ نہ آخرت میں کریں گے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جَرَمَ فعل ہے ‘ جَرْممصدر ہے۔ جَرْم کا معنی ہے انقطاع اور لا نافیہ ہے ‘ جیسے لابُدّ میں لا نفی کا ہے اور بُدّ فعل ہے۔ تبدید کا معنی ہے تفریق ‘ یعنی الوہیت اصنام کے دعوے کا بطلان ہر زمانہ میں ہے ‘ کسی وقت اس دعوے کے غلط ہونے کا انقطاع نہیں ہے۔ یہ تو ہوئی لفظ لاجرم کی (اصلی لغوی) تحقیق ‘ عرف عام میں لاَ جَرَمَ کا معنی ہوتا ہے قطعی ‘ یقینی۔ قاموس میں ہے : لاَ جَرَمَ یعنی لاَ بُدّ (ضروری) قطعی ‘ لامحالہ۔ یہ لاَ جَرَمَ کا عمومی استعمال ہے ‘ اس کے بعد کسی کلام کو پختہ کرنے کیلئے قسم کے معنی میں اس کا استعمال کیا جانے لگا ‘ اسلئے اس کے جواب میں لام کا آنا ضروری قرار دیا گیا ‘ جیسے کہا جاتا ہے : لاَ جَرَمَ لَاٰتِیَنَّکَ میں ضرور ضرور تیرے پاس آؤں گا۔ وَاِنَّ مَرَدَّنَا یعنی مرنے کے بعد ہم سب کو لوٹ کر اللہ کے پاس جانا ہے ‘ وہی حسب استحقاق ہر ایک کو جزا و سزا دے گا۔ وَاَنَّ الْمُسْرِفِیْنَ گمراہی میں حد سے تجاوز کرنے والے ‘ یعنی شرک اور بےقصور خوں ریزی کرنے والے۔ ھُمْ اَصْحٰبُ النَّار یعنی ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ فَسَتَذْکُرُوْنَ یعنی جب عذاب آنکھوں کے سامنے آجائے گا ‘ اس وقت تم لوگ باہم میری نصیحت یاد کرو گے ‘ لیکن اس وقت نصیحت یاد کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللہ اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں کہ وہی ہر دکھ اور تکلیف سے مجھے محفوظ رکھے۔ جب عبدمؤمن نے فرعونیوں کے دن کی علی الاعلان مخالفت کی تو لوگوں نے اس کو سزا دینے کی دھمکی دی ‘ اس وقت اس نے یہ جملہ کہا۔ اِنَّ اللہ بَصِیْرٌم بالْعِبَاد یعنی اللہ سب بندوں کو خوب دیکھتا ہے ‘ وہی خوب جانتا ہے کہ کون حق پرست ہے اور کون باطل کوش۔ اس کے بعد عبدمؤمن فرعونیوں کے پاس سے چلا گیا اور روپوش ہوگیا ‘ جس کے بعد کافروں کو اس پر کبھی دسترس حاصل نہ ہوئی۔
Top