Tafseer-e-Mazhari - Ar-Rahmaan : 13
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
تو (اے گروہ جن وانس) تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
فبای الاء ربکما تکذبان . ” سواَے جن و انس تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے۔ “ اِس آیت میں جن و انس کو خطاب ہے کیونکہ پہلے لِلَانَام فرمایا تھا (اور انام سے مراد جن و انس تھے) اس کے علاوہ آگے ایھا الثقلان (اے جن و انس) بھی فرمایا ہے۔ بعض اہل علم نے کہا کہ صیغہ اگرچہ تثنیہ کا استعمال کیا ہے لیکن خطاب صرف انسانوں سے ہے اور عرب اپنی زبان میں ایسا استعمال کرلیتے ہیں۔ اللہ نے بھی آیت القیانی جہنم میں بھی ایسا استعمال کیا ہے۔ فَبِاَیِّ : میں فَ سببی ہے اور استفہام کا مقصد ہے الاء کو مؤکد کرنا اور تکذیب الاء کو رد کرنا کیونکہ الاء کا ذکر نعمتوں کے اقرار اور منعم کے شکر کا : مقتضی ہے اور نعمتوں کی تکذیب کی نفی کر رہا ہے۔ اسی طرح ناشکری پر وعید (اور شکر پر) وعدہ نعمتوں کے اقرار و شکر کا موجب ہے۔ حاکم نے بوساطت محمد بن منکدر حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت سے بیان کیا ہے ‘ حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے سورة رحمن آخر تک تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا : مَیں تم لوگوں کو خاموش دیکھ رہا ہوں ‘ ایسا کیوں ہے ؟ تم سے تو بہتر جن تھے جب اور جتنی بار میں نے ان کے سامنے آیت فبای الاء ربکما تکذبن پڑھی ‘ ہر بار انہوں نے کہا : اے ہمارے رب ! ہم تیری کسی نعمت کا انکار نہیں کرتے ‘ تیرے ہی لیے (ہر طرح کی) حمد ہے۔
Top