Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 13
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
پس (اے جن و انس) تم دونوں اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟
پس تم دونوں اپنے ربٍّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے 13۔ یہ وہ فقرہ ہے جو اس سورت میں بار بار دہرایا گیا ہے اور اس سورت کی 78 آیتوں میں سے 31 بار یہی آیت دہرائی گئی ہے اور باقی کل 47 آیات کریمات بچتی ہیں۔ اس میں خطاب جنس انسانی کی دونوں اقسام کو کیا گیا ہے وہ لوگ جو مدنی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور دوسرے انسانوں سے مل جل کر وقت گزارنا چاہتے ہیں اور وہ بھی جو بدوی زندگی کو مدنی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں اور پہاڑوں اور غاروں میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس کی وضاحت ہم پیچھے بھی بہت سے مقامات پر کر آئے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ شاید ہم جن مخلوق سے انکاری ہیں۔ ہرگز نہیں لیکن اس جگہ بحث مکلفین کی ہے اور مکلف وہ ہے جس پر انسان کا لفظ اطلاق کرتا ہے اور قرآن کریم میں بار بار اعلان کیا گیا ہے کہ ہر نبی کا تعلق قوم کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر قوم ہی سے نبی ورسول بھیجا گیا ہے ، اس کی وضاحت خود قرآن کریم میں موجود ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے قوم تو انسانوں کی ہو اور نبی قوم جن سے تعلق رکھتا ہو یا نبی قوم جن سے آیا ہو لیکن وہ انسانوں کے لیے بھی نبی بنایا گیا ہو اور جنوں کے لیے بھی۔ ہاں ! انسان چونکہ من حیث الجنس سارے انسان ہی ہیں خواہ وہ خواندہ ہیں یا ناخواندہ۔ خواندہ جاہل ہیں یا جاہل خواندہ ہیں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ من حیث الجنس ان کا تعلق انسانوں ہی کے ساتھ ہے اور جو مکلف ہیں وہ بھی انسان ہی ہیں اس لیے نبی ورسول کا تعلق جنس انسان ہی سے ہے نہ کہ جنس جن سے اگر کسی نبی ورسول کا تعلق جنس انسان کے ساتھ نہ ہو تو قرآن کریم کی ان آیات کریمات کا کیا ہوگا جن میں نبی ورسول کا تعلق قوم سے ہونا لازم و ضروری ہے اور کوئی نبی و رسول بھی غیر قوم سے نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ان کی نبوت و رسالت کبھی غیر قوم کے لیے ہوتی ہے لیکن اگر یہ نظریہ بھی ساتھ ہی تسلیم کرلیا جائے کہ انسان رسول بنائے جانے والا جنوں اور انسانوں دونوں کے لیے رسول ہوتا ہے تو قرآن کریم میں تضاد واضح ہوگیا حالانکہ قرآن کریم میں تضاد ہو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور دوسری جگہ خود قرآن کریم نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ میرے اندر تضاد نہیں ہے اور یہی اس بات کی تصدیق ہے کہ میں غیر اللہ کی طرف سے نہیں ہوں اگر غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو مجھ میں تضاد ہوتا اور اس کی وضاحت ہم غزوۃ الوثقٰی ، جلد سوم سورة النساء کی آیت 82 میں کرچکے ہیں۔ مختصر یہ کہ جن کا لفظ بہت وسیع ہے اور اس کی وسعت کے متعلق ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز آگے بھی کریں گے اور اس جگہ بھی عرض کر رہے ہیں کہ اس کا اطلاق ہر اس مخلوق پر ہوتا ہے جو زمین کے اندر ، پہاڑوں کے اندر اور اسی طرح دوسری جگہوں پر بھی پوشیدہ رہنے کو ترجیح دے اور اس طرح سارے حشرات الارض پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور وہ مخلوق جو ان ظاہری آنکھوں سے نظر ہی نہ آتی ہو اس پر بھی اور اسی طرح ڈنگروں ، ڈھوروں پر بھی بولا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان کا اپنا بچہ جب تک پیدا ہو کر سارے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے نہیں آجاتا اس پر بھی ” جنین “ کے لفظ کا اطلاق کرتے ہیں اور وہ خاص مخلوق بھی ” جن “ ہے جس کی پیدائش آگ سے تسلیم کی گئی ہے جو ابلیس کی ذریت ہوگی اور یہ مخلوق دراصل ” ملک “ یعنی فرشتہ کی ضد ہے اور جس طرح فرشتہ کوئی اپنا مرئی جسم نہیں رکھتا وہ بھی نہیں رکھتا۔ فرشتہ نوری ہے تو وہ ناری ہے۔ فرشتہ مجسمہ خیر ہے تو وہ مجسمہ شر ہے۔ جس طرح فرشتہ برائی پر آمادہ نہیں ہوتا اسی طرح ” جن “ خیر پر آمادہ نہیں ہوتا اور دونوں ہی مکلف نہیں ہیں۔ فرشتہ اہل جنت کا ساتھی ہے تو ” جن “ اہل دوزخ کا لیکن جن کا اطلاق بہت سی دوسری مخلوق پر بھی ہے کہ جیسا کہ بیان ہوچکا۔ اس لیے اس سے اکثر لوگوں کو غلطی لگتی ہے لیکن کتنے ہی الفاظ ہیں جو اپنے تلفظ کے لحاظ سے تو ایک ہی ہیں لیکن اپنے اطلاق کے لحاظ سے ان کا مفہوم بہت وسیع ہوتا ہے اور جو مفہوم ان کا ایک جگہ سمجھا جاتا ہے دوسری جگہ وہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس ایک ہی لفظ کے مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق موجود ہوتا ہے اور یہ بات سب کو تسلیم ہے۔ مثلاً محبت ایک لفظ ہے۔ انسان محبت کرتا ہے اللہ سے ، اس کے رسول سے ، اپنی اولاد ، اپنے ماں باپ سے ، اپنے عزیزوں رشتہ داروں سے اور اپنی بیوی سے لیکن جو محبت اللہ کے لیے ہے وہ غیر اللہ کے لیے حرام ہے وہ کسی دوسرے سے نہیں کی جاسکتی۔ جس محبت کا مستحق اللہ کا رسول (محمد رسول اللہ ﷺ ہیں وہ محبت محض رسول اللہ ﷺ ہی کے لیے خاص ہے اور جو محبت ماں باپ کے لیے ہے وہ بیوی کے لیے نہیں جو بیوی کے لیے ہے وہ ماں باپ اور اولاد کے لیے نہیں ہے۔ محبت کا ایک ہی لفظ جب کسی کے ساتھ لگایا جائے گا تو اپنا مفہوم خود واضح کردے گا اسی طرح لفظ ” جن “ کا اطلاق ہے۔ زیرنظر آیت میں جس مخلوق کو مخاطب کا گیا ہے وہ مخلوق مکلف ہے اور ظاہر ہے مکلف فقط انسان ہی ہے اور انسان کی دونوں تقسیم میں اپنی نوع اور جنس کے لحاظ سے ایک ہیں لیکن اصناف کے لحاظ سے ان کو تقسیم کیا گیا ہے اور یہی ان آیات میں مخاطب ہیں۔ دوسرالفظ اس آیت میں (الاء) کا قابل وضاحت ہے۔ کہ (الاء) جمع ہے جس کا واحد الی ہے اور الی اور الی تسلیم کیا گیا ہے اور سب مفسرین اور اہل لغت نے یہی واحد تحریر کیا ہے لیکن قرآن کریم میں اسم واحد استعمال نہیں ہوا۔ (الاء) کا لفظ قرآن کریم میں 32 بار آیا ہے دو بار سورة الاعراف کی آیت 29 ، 74 میں اور ایک بار سورة النجم کی آیت 55 میں اور 31 بار سورة الرحمن ہیں۔ اس کا اصل مادہ ا ل و یا ا ل ی تسلیم کیا گیا ہے اور اس مادہ کے دوسرے الفاظ جو قرآن کریم میں بارن ہوئے ہیں۔ وہ (یالونکم) سورة آل عمران کی آیت 118 میں (یاتل) سورة النور کی آیت 22 میں اور (یولون) سورة البقرہ کی آیت 226 میں صرف ایک ایک بار ہی آئے ہیں اور اس مادہ سے (الاء) کو تسلیم کیا گیا ہے اگر یہ صحیح ہے تو مادہ کے اندر نعمت کا کوئی مفہوم موجود نہیں ہے اس لیے اس پر نعمتوں کے لفظ سے جو ترجمہ کیا گیا ہے اس پر لوگوں نے کلام کیا ہے لیکن مفسرین نے بالاتفاق اس کے معنی نعمت ہی کے کیے ہیں اب اس کے معنی عجائب قدرت کریں ، کرشمہ سازی کریں یا محض نشانیاں کہہ دیں یا نعمتیں کہیں یا جو معنی جہاں مناسب ہوں وہ کرلیں بہرحال ہمارے خیال میں یہ آیت اپنی گزشتہ یا آنے والی آیت سے مل کر خود ہی اپنا مفہوم متعین کرلے گی یا جو تعلق دونوں میں قائم ہوگا اس کی نشاندہی ہم کرتے جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔ لیکن ہر بار وضاحت کی ضرورت نہیں ہے گویا وضاحت اس جگہ آگئی اسی پر نظر دوبارہ کرلی جائے اور اس کے ساتھ دوسری محولہ آیات جن میں یہ لفظ (الاء) کا آیا ہے اس کو بھی دیکھ لیا جائے تو مزید وضاحت سامنے آجائے گی۔
Top