Al-Qurtubi - Ar-Rahmaan : 13
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
تو (اے گروہ جن وانس ! ) تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟
فبای الآء ربکما تکذبن۔ یہ جن وانس کو خطاب ہے کیونکہ انام کا لفظ دونوں پر صادق آتا ہے (7) یہ جمہور کا قول ہے۔ اس پر حضرت جابر کی حدیث دلالت کرتی ہے جس کا ذکر سورت کے آغاز میں وہا ہے، اسے امام ترمذی نے نقل کیا ہے اس میں ہے للجن احسن منکم ردا (1) جنوں نے تم سے بہتر جواب دیا۔ ایک قول یہ کیا گیا : جب فرمایا خلق الانسان اور فرمایا : خلق الجآن اس چیز نے اس امر پر دلالت کی کہ جس کا ذکر پہلے ہوا یا بعد میں ہوا اس پر یہ دال ہے نیز یہ بھی فرمایا : سفرء لکم ایہ الثقین یہ خطبا انسانوں اور جنوں کو ہے اس صورت میں فرمایا، یمعشر الجن والانس۔ جرجانی نے جنوں کو انسان کے ساتھ خطاب کیا اگرچہ جنوں کا پہلے ذکر نہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : حتی توارت بالحجاب۔ (ص) جنوں کا ذکر وہاں ہوچکا تھا جو پہلے نازل ہوا قرآن ایک سورت کی طرح ہے جب یہ ثابت ہے کہ وہ انسانوں کی طرح مکلف ہیں تو ان آیات میں دونوں جنسوں کو خطاب کیا گیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : خطاب صرف انسانوں کو ہے جس طرح عربوں کی عادت ہے کہ ایک کو خطاب تثنیہ کے لفظ کے ساتھ کرتے ہیں جس طرح القیافی جھنم (ق : 24) میں گفتگو گزر چکی ہے اسی طرح قفانیک اور خلیلی مزابی میں گزر چکا ہے، جاں تک خلق الانسان۔ اور خلق الجآن کے بعد جو خطاب ہے وہ انسان اور جنوں دونوں کو ہے۔ صحیح جمہور کا قول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : والارض وضعھا للانام، آلاء سے مراد نعمتیں ہیں (2) یہ تمام مفسرین کا قول ہے اس کا واحد الی اور الی ہے جس طرح معنی اور عصا ہے الی اور الی اس میں چار لغتیں ہیں جن کا ذکر نحاس نے کیا ہے کہا، اناء اللیل کے واحد میں تین لغتیں ہیں ان میں سے الف مفتوح اور لام ساکن والی لغت ساقط ہے۔ سورة الاعراف اور سورة النجم میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ ابن زید نے کہا اس سیم راد قدرت ہے تقدیر کلام یہ ہے فبای قدرۃ ربکما تکذبان یہ کلبی کا قول ہے۔ امام ترمذی محمد بن علی نے اسے ہی اختیار کیا ہے کہا، یہ سورت قرآن کی سورتوں کا جھنڈا ہے جھنڈا لشکر کا امام وہتا ہے اور لشکر اس کی پیروی کرتا ہے : یہ علم (جھنڈا) بنا کیونکہ یہ ملک وقدرت کی صفت ہے فرمایا : الرحمٰن۔ علم القرآن۔ سورت کا آغاز دوسرے اسماء کی بجائے رحمٰن کے اسم سے کیا تاکہ بندوں کو علم ہوجائے کہ اس کے بعد تمام وہ چیزیں جن کے ساتھ صفت بیان کی ہے وہ اس کے افعال، اس کے ملک اور اس کی قدرت میں سے ہے اللہ تعالیٰ کی رحمانیت میں سے رحمت عظمیٰ ان کی طرف نلکی ہے۔ فرمایا : الرحمٰن۔ علم القرآن۔ پھر انسان کا ذکر کیا فرمایا : خلق الانسان۔ پھر ان چیزوں کا ذکر کیا جو انسان پر احسانات کئے پھر سورج و چاند کے احسان اور اشیاء یعنی نجم و شجر کے سجود کا ذکر کیا پھر آسمان کے بلند کرنے اور میزان یعنی عدل قائم کرنے اور زمین کو انام کے لئے بچھانے کا ذکر کیا، پھر جن و انس کو خطاب کیا جب انہوں نے ان چیزوں کو دیکھا جو اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کی وجہ سیق درت و ملک میں سے ظاہر ہوئیں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کسی منفعت اور حاجت کے بغیر کیں، تو لوگوں نے اس کے ساتھ بتوں کو شریک کرلیا اور ہر معبود کو اس کے سوا اپنا معبود بنا لیا اور اس رحمت کا انکار کردیا جس کے ساتھ یہ اشیاء ان کی طرف نکلیں۔ سوال کرتے ہوئے انہیں فرمایا : فبای الآء ربکما تکذبن یعنی تم اپنے رب کی کس قدرت کا انکار کرتے ہ ؟ ان کی تکذیب یہ تھی کہ وہ چیزیں جو اس کے ملک اور قدرت سے ظاہر ہوئی تھیں ان میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ انہوں نے شریک ٹھہرا لیا جو اس کے ساتھ مالک ہے اور اس کے ساتھ قادر ہے یہی ان کی تکیذب ہے۔ پھر یہ ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صلصال سے پیدا کیا۔ پھر یہ ذکر کیا کہ جنوں کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا۔ پھر ان سے پوچھا تو فرمایا : فبای الآء ربکما تکذبن یعنی تم اپنے رب کی کس قدرت کا انکار کرتے ہو کیونکہ ہر مخلوق میں اس کی قدرت کے بعد قدرت شامل ہے۔ ان ایٓات میں تکرار تاکید کے لئے اور وضاحت میں مبالغہ کے لئے ہے اور ان کے خلاف دلیل قائم کرنے کے لئے ہے کہ ایک مخلوق کے بعد دوسری مخلوق کو پیدا کیا۔ قتبی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں اپنی نعمتوں کا شمار کیا اپنی مخلوق کو پانی نعمتیں یاد دلائیں۔ پھر اس کے پیچھے ہر اس کجی کا ذکر کیا جس سے وہ متصف تھا اور ہر اس نعمت کا ذکر کیا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے باوجود اس پر کی اور یہ دو نعمتوں کے درمیان اسے فاصلہ کے طور پر رکھا تاکہ انہیں نعمتوں پر متنبہ کرے اور انہیں وہ نعمتیں یاد دلائے جس طرح تو اس آدمی کو کہتا ہے جس پر تو لگاتارا احسان کرتا ہے جب کہ وہ اللہ کی ناشکری کرتا ہے اور اس کا انکار کرتا ہے۔ کیا تو فقیر نہیں تھا تو میں نے تجھے غنی کردیا۔ کیا تو اس کا انکار کرتا ہے ؟ کیا تو گمنام نہ تھا تو میں نے تجھے عزت دار بنا دیا کیا تو اس کا انکار کرسکتا ہے اس قسم کی صورت حال میں تکرار اچھا ہے، جس طرح کہا ، کم نعمۃ کا نت لکم کم کم وکم تمہارے لئے کتنی ہی نعمتیں ہیں۔ اسی طرح کہا ، لاتقتلی مسلما ان کنت مسلمۃ ایان من دمہ ایاک ایاک اگر تو مسلمان عورت ہے تو کسی مسلمان کو قتل نہ کر اس کے خون سے بچ۔ ایک اور شاعر نے کہا۔ ولا تملن من زیارتہ زرہ وزرہ وزر وزر وزر اپنے دوست کی ملاقات سے نہ اکتا تو اس کی ملاقات کر۔
Top