Tadabbur-e-Quran - Ar-Rahmaan : 13
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
تو اے جنو اور انسانو ! تم اپنے رب کی کن کن عنایتوں کو جھٹلائو گے !
(فباری الاربکما تکذبن) (13) (جنوں کو خطاب کرنے کی ایک خاص وجہ)۔ یہ آیت آگے بار بار آئے گی اور یہ اس سورة کی اہم ترین آیت ہے اس وجہ سے تم نے تمہیدہی میں لفظ الا کی تحقیق بھ بیان کر رہی ہے اور اس میں جنوں اور انسانوں سے جو خطاب ہے اس کی نوعیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ البتہ ایک بات ہم یہاں واضح کریں گے وہ یہ کہ قریش کے مکذبین کے ساتھ جنات کے مکذبین کو بھی یہاں جو شامل کرلیا ہے تو اس کی ایک خاص وجہ ہے کہ تکذیب کی یہ مہم اس دور میں پوری شدت اختیار کرگئی تھی اور شیاطین انس وجن، دونوں گٹھ جوڑ کر کے اپنا پورا زور صرف کر رہے تھے کہ دعوت حق کے قدم اکھاڑ دیں۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دونوں کو براہ راست خطاب کر کے ان کو سرزنش بھی فرمائی اور آگے کی آیات سے معلوم ہوگا کہ ان کو چیلنج بھی کیا ہے کہ وہ اپنا سارا زور لگا کر دیکھ لیں، کلمہ حق ان کے علی الرغم بلند ہو کررہے گا۔ تمہید میں یہ بات ہم واضح کرچکے ہیں کہ یہ سورة ٔ مکی زندگی کے اس دور میں نازل ہوئی ہے جب قریش پر ضد اور فی صمت کا بخار پوری شدت کے ساتھ چڑھا ہوا تھا۔ اس دور میں ظاہر ہے کہ ان کو شیاطین جن کی کک بھی سب سے زیادہ حاصل ہوئی ہوگی۔ یہ صورت حال مقتضی ہوئی کہ دونوں مخاطب کیے جائیں۔ (منعم کی شکر گزاری فطرت کا تقاضا ہے)۔ نعمت کے ساتھ منعم کی شکر گزاری اور ربوبیت کے ساتھ مسئولیت کا احساس انسانی فطرت کا ایک بدیہی تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں سے ایک شخص متمتع تو ہو رہا ہے لیکن وہ یہ تسلیم نہیں کرتا کہ ان کے عوض میں اس کے اوپر نعمتوں کے بخشنے والے کا کوئی حق بھی قائم ہوتا ہے یا ان کے باب میں اس سے کوئی پرسش بھی ہونی ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ ان تمام نعمتوں کا مکذب ہے۔ قرآن نے یہاں اسی تکذیب پر قریش اور ان کے ہم مشرب جنوں کو سرزش فرمائی ہے کہ ہر قوم پر تمہارے سامنے تمہاری رب کی وہ نعمتیں موجود ہیں جو تمہیں روز باز پرس کی یاددہانی کر رہی ہیں لیکن تم اس کا انکار کیے جا رہے ہو تو اس کی کن کن نعمتوں اور عنایتوں کی تکذیب کرو گے !۔
Top