Anwar-ul-Bayan - Ar-Rahmaan : 13
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
تو (اے گروہ جن وانس ! ) تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟
(55:13) فبای الاء ربکما تکذبان :سببیہ ہے اور ای استفہامیہ ہے۔ اور استفہام کا مقصد ہے۔ (1) الاء کو مؤکدہ کرنا۔ (2) تکذیب الاء کو رد کرنا۔ کیونکہ الاء لا ذکر نعمتوں کے اقرار اور منعم کے شکر کا مقتضی ہے اور نعمتوں کی تکذیب کی نفی کر رہا ہے۔ اسی طرح ناشکری پر وعید (اور شکرپر) وعدہ نعمتوں کے اقرار و شکر کا موجب ہے۔ حاکم نے بوساطت محمد بن منکدر حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ :۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے سورة الرحمن آخر تک تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا کہ : ۔ میں تم لوگوں کو خاموش دیکھ رہا ہوں۔ ایسا کیوں ہے ؟ تم سے بہتر تو جن تھے جب اور جتنی بار میں نے ان کے سامنے فبای الاء ربکما تکذبن پڑھی ہر بار انہوں نے کہا کہ اے ہمارے رب ہم تیری کسی نعمت کا انکار نہیں کرسکتے تیرے ہی لئے ہر طرح کی حمر ہے (ولا بشی من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد تفسیر مظہری) الائ : جمع ہے اس کا واحد الی ہے اس کا معنی ہے النعم نعمتیں (لسان العرب) ۔ امام راغب لکھتے ہیں :۔ الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح اناء کا واحد انا وانی ؤتا ہے (مفردات) نیز راغب نے بھی الاء کا ترجمہ نعمتیں کیا ہے۔ آیت واذکروا الاء اللہ (7:74) کا ترجمہ کیا ہے : پس خدا کی نعمتوں کو یاد کرو۔ المنجد میں الا لی الالی الالی (جمع الائ) بمعنی نعمت، مہربانی، فضل لکھا ہے۔ علامہ مودودی نے الاء پر تفصیلی بحث کی ہے جسے درج ذیل کیا جاتا ہے۔ اصل میں لفظ الاء استعمال ہوا ہے جسے آگے کی آیتوں میں بار بار دہرایا گیا ہے اور ہم نے مختلف مقامات پر اس کا مفہوم مختلف الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اس لئے آغاز میں ہی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس لفظ میں کتنی وسعت ہے اور اس میں کیا کیا مفہومات شامل ہیں۔ الاء کے معنی اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالعموم نعمتوں کے بیان کئے ہیں تمام مترجمین نے بھی یہی اس کا ترجمہ کیا ہے اور یہی معنی حضرت ابن عباس ؓ حضرت قتادہ اور حضرت حسن بصری (رح) سے منقول ہیں۔ سب سے بڑی دلیل اس معنی کے صحیح ہونے کی یہ ہے کہ خود نبی کریم ﷺ نے جنوں کے اس قول کو نقل فرمایا ہے کہ وہ اس آیت کو سن کر بار بار لابشی من نعمک ربنا نکذب کہتے تھے۔ لہٰذا زمانہ حال کے محققین کی اس رائے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ الاء نعمتوں کے معنی میں سے سے ہوتا ہی نہیں۔ دوسرے معنی اس لفظ کے قدرت اور عجائب قدرت یا کمالات قدرت ہیں ابن جریر طبری نے ابن زید کا قول نقل کیا ہے کہ : فبای الاء ربکما کے معنی ہیں فبای قدرۃ اللہ۔ ابن جریر نے خود بھی آیات 37، 38 کی تفسیر میں الاء کو قدرت کے معنی میں لیا ہے امام رازی نے بھی آیات 14، 15، 16 کی تفسیر میں لکھا ہے : یہ آیات بیان نعمت کے لئے نہیں بلکہ بیان قدرت کے لئے ہیں۔ اور آیات 22 ۔ 23 کی تفسیر میں وہ فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے عجائب قدرت کے بیان میں ہے نہ کہ نعمتوں کے بیان میں ۔ اس کے تیسرے معنی ہیں : خوبیاں۔ اوصاف حمیدہ اور کمالات و فضائل ۔ اس معنی کو اہل لغت اور اہل تفسیر نے بیان نہیں کیا ہے مگر اشعار عرب میں یہ لفظ کثرت سے اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ نابغہ کہتا ہے :۔ ہم الملوک وابناء الملوک لہم ۔ فضل علی الناس فی الا الاء النعم۔ (وہ بادشاہ اور شہزادے ہیں۔ ان کو لوگوں پر اپنی خوبیوں اور نعمتوں میں فضیلت حاصل ہے) ۔ مہلہل اپنے بھائی کلیب کے مرثیہ میں کہتا ہے :۔ الحزم والعزم کان من طبائعہ : ما کل الائہ یا قوم احصیہا حزم اور عزم اس کے اوصاف میں سے تھے ۔ لوگو ! میں اس کی ساری خوبیاں بیان نہیں کر رہا ہوں۔ فضالہ بن زید العدوانی غریبی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :۔ غریب اچھا کام بھی کرے تو برا بنتا ہے اور وتحمد الاء البخیل المدرہم مالدار بخیل کے کمالات کی تعریف کی جاتی ہے۔ اجدع ھمدانی اپنے گھوڑے کمیت کی تعریف میں کہتا ہے کہ : ورضیت الاء الکمیت فمن یبع۔ فرسا فلیس جو ادنا بمباع (مجھے کمیت کے عمدہ اوصاف پسند ہیں اگر کوئی شخص کسی گھوڑے کو بیچتا ہے تو بیچے ہمارا گھوڑا بکنے والا نہیں ہے۔ حماسہ کا ایک شاعر جس کا نام ابو تمام نے نہیں لیا ہے وہ اپنے ممدوح ولدی بن ادہم کے اقتدار کا مرثیہ لکھتا ہے :۔ اذا ما امرؤ اثنی بالاء میت : فلا یبعد اللہ الولید بن ادھما فم کان فراجا اذا الخیر مسہ : ولا کان منانا اذھو انعما ترجمہ : جب بھی کوئی شخص مرنے والے کی خوبیان بیان کرے، تو خدا نہ کرے کہ ولید بن ادہم اس موقع پر فراموش ہو۔ اس پر اچھے حالات آتے تو پھولتا نہ سماتا تھا۔ اور کسی پر احسان کرتا تھا تو جتلاتا نہ تھا۔ طرقہ ایک شخص کی تعریف میں کہتا ہے :۔ کامل یجعم الاء الفتی : نبہ سید سادات خضم وہ کامل اور جو ان مردی کے اوصاف کا جامع ہے۔ شریف ہے سرداروں کا سردار دریا دل۔ ان شواہد و نظائر کی روشنی میں ہم نے لفظ الاء کو اس کے وسیع معنی میں لیا ہے اور ہر جگہ موقع محل کے مطابق اس کے جو معنی مناسب تر نظر آئے ہیں وہی ترجمے میں درج کر دئیے ہیں۔ لیکن بعض مقامات پر ایک ہی جگہ لاء کے کئی مفہوم ہوسکتے ہیں اور ترجمے کی مجبوری سے ہم کو اس کے ایک ہی معنی اختیار کرنے پڑے ہیں کیونکہ اردو زبان میں کوئی لفظ اتنا جامع نہیں ہے کہ وہ ان سارے مفہومات کو بیک وقت ادا کرسکے۔ مثلاً اس آیت 13 میں زمین کی تخلیق اور اس میں مخلوقات کی رزق رسانی کے بہترین انعامات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے رب کی کن کن الاء کو جھٹلاؤ گے۔ اس موقع پر آلاء صرف نعمتوں کے ہی معنی میں نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ شانہ کی قدرت کے کمالات اور اس کی صفات حمیدہ کے معنی میں بھی ہے۔ یہ اس کی قدرت کا کمال ہے کہ اس نے اس کرہ خاکی کو اس عجیب طریقے سے بنایا کہ اس میں بیشمار اقسام کی زندہ مخلوقات رہتی ہیں اور طرح طرح کے پھل اور غلے اس کے اندر پیدا ہوتے ہیں اور یہ اس کی صفات حمیدہ ہی ہیں کہ اس نے ان مخلوقات کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں ان کی پرورش اور رزق رسانی کا بھی انتظام کیا اور انتظام بھی اس شان کا کہ ان کی خوراک میں نرمی غزائیت ہی نہیں ہے بلکہ لذت کام و دہن اور ذوق نظر کی بھی ان گنت رعایتیں ہیں۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی کاریگری کے صرف ایک کمال کی طرف بطور نمونہ اشارہ کیا گیا ہے کہ کھجور کے درختوں میں پھل کس طرح غلافوں میں لپیٹ کر پیدا کیا جاتا ہے اس کی ایک مثال کو نگاہ میں رکھ کر ذرا دیکھئے کہ کیلے، انار، سنترے، ناریل اور دوسرے پھلوں کی پیلنگ میں آرٹ کے کیسے کیسے کمالات دکھائے گئے ہیں۔ اور یہ طرح طرح کے غلے اور دالیں اور حبوب جو ہم بےفکری کے ساتھ پکا پکا کر کھاتے ہیں َ ان میں سے ہر ایک کو کیسی کیسی نفیس بالوں اور خوشوں کی شکل میں پیک کرکے اور نازک چھلکوں میں لپیٹ کر پیدا کیا جاتا ہے۔ (تفہیم القرآن) تکذبن : مضارع تثنیہ مذکر حاضر۔ تکذیب (تفعیل) مصدر۔ تم دونوں جھٹلاتے ہو۔ یا ۔ تم دونوں جھٹلاؤ گے۔ یہاں مخاطب جن و انس ہیں اس لئے تثنیہ کا صیغہ لایا گیا ہے بعض کے نزدیک خطاب انسان سے ہے اور واحد کی بجائے تثنیہ کا صیغہ تاکید کے لئے لایا گیا ہے اس کی مثال قرآن مجید میں اور جگہ ملتی ہے۔ مثلاً : القیافی جھنم کل کفار عنید (50:24) ہر سرکش ناشکرے کو دوزخ میں ڈال دو ۔ یہاں تثنیہ کا صیغہ تائید کے فائدہ کے لئے آیا ہے۔ فائدہ : یہ آیت اس سورت میں 31 بار دہرائی گئی ہے ۔ تفسیر حقانی میں اس کی وضاحت میں تحریر ہے۔ شعرائے عرب بلکہ عجم چند اشعار مختلف المضامین کے بعد ایک بند بطور مسدس یا مخمس کے ایک اشتراک خاص ملحوظ رکھ کر مکرر لایا کرتے ہیں، جس سے اس مضمون کی خوبی دوبالا ہوجاتی ہے اور سامع کی طبیعت جو کسی قدر غافل ہوجاتی ہے اس پر ایک کوڑا سا تنبیہ کرنے کے لئے پڑجاتا ہے۔ اسی طرح اس سورت میں وہ بند فبای الاء ربکما تکذبن ہے جو ہر ایک ضان بخش مضمون کے بعد مکرر آکر مطالب میں جان ڈال دیتا ہے ۔ اس بات کا لفظ انہیں کو زیادہ آتا ہے جو کہ مذاق سخن سے کچھ واقفیت رکھتے ہیں۔ عبارت کا دلکش ہونا بھی اثر کلام میں بڑی تاکید کرتا ہے۔ (تفسیر حقانی) اس طرح سورة القمر میں جملہ ولقد یسرنا القران للذکر فہل من مدکر۔ چار دفعہ اور سورة المرسلت میں جملہ ویل یومئذ للمکذبین دس مرتبہ دہرایا گیا ہے۔
Top