Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 181
وَ مِمَّنْ خَلَقْنَاۤ اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ۠   ۧ
وَمِمَّنْ : اور سے۔ جو خَلَقْنَآ : ہم نے پیدا کیا اُمَّةٌ : ایک امت (گروہ) يَّهْدُوْنَ : وہ بتلاتے ہیں بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (ٹھیک) وَبِهٖ : اور اس کے مطابق يَعْدِلُوْنَ : فیصلہ کرتے ہیں
اور ہماری مخلوقات میں سے ایک وہ لوگ ہیں جو حق کا رستہ بتاتے ہیں اور اسی کے ساتھ انصاف کرتے ہیں
وممن خلقنا امۃ یہدون بالحق وبہ یعدلون : اور ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو حق (یعنی اسلام) کے مطابق ہدایت کرتا ہے اور حق ہی کے موافق عدل کرتا ہے۔ وَمِمَّنْ خلقنا امۃ بغوی نے لکھا ہے کہ عطاء نے حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ آیت میں امت سے مہاجرین انصار اور وہ لوگ جو ان کے پیرو ہوں مراد ہیں۔ قتادہ نے کہا ہم کو اطلاع ملی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس آیت کو پڑھ کر فرماتے یہ تمہارے لئے ہے اور اسی کی طرح اس امت کو بھی دیا گیا تھا جو تمہارے سامنے موجود ہے (یعنی یہودی ‘ یہودیوں کے متعلق آیا تھا) ومن قوم موسیٰ امۃ یہدون بالحق وبہ یعدلون کلبی نے کہا (کوئی خاص امت مراد نہیں ہے بلکہ آیت عام ہے) تمام لوگوں میں ایسا گروہ ہوتا ہے بہرحال (آیت میں خاص امت مراد لی جائے یا عام) اللہ نے پہلے ذکر کیا کہ ایک گروہ کو دوزخ کے لئے پیدا کیا گیا ہے جو ظالم اور حق سے اعراض کرنے والے ہیں پھر (اس آیت میں) ذکر کیا کہ ایک گروہ کو جنت کے لئے پیدا کیا ہے جو حق کے موافق ہدایت کرتا اور عدل کرتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ ہر زمانہ میں اجماع اہل ہدایت صحیح (بلکہ بنص قرآنی ضروری الوقوع) ہے اور اس آیت سے وہ حدیث تعلق رکھتی ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت میں برابر ایک گروہ پیدا ہوتا رہے گا جو اللہ کے امر کو پورے طور پر ادا کرتے رہے گا ان کی مدد نہ کرنے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے ان کو کوئی ضرر نہ پہنچا سکیں گے۔ یہاں تک کہ اسی حالت میں قیامت آجائے گی۔ متفق علیہ من حدیث معاویۃ بن ابی سفیان و مغیرۃ بن شعبہ مگر یہ استدلال غلط ہے اور حدیث مذکور کا بھی اس آیت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ ہر امت میں ایک گروہ ایسا ضرور ہوگا۔
Top