Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 14
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ
وَلَمَّا
: اور جب
بَلَغَ اَشُدَّهٗ
: وہ پہنچا اپنی جوانی
وَاسْتَوٰٓى
: اور پورا (توانا) ہوگیا
اٰتَيْنٰهُ
: ہم نے عطا کیا اسے
حُكْمًا
: حکمت
وَّعِلْمًا
: اور علم
وَكَذٰلِكَ
: اور اسی طرح
نَجْزِي
: ہم بدلہ دیا کرتے ہیں
الْمُحْسِنِيْنَ
: نیکی کرنے والے
اور جب سچے موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوت پر اور سنبھل گئے ، تو وہی ہم نے ان کو حکمت اور سمجھ اور اسی طرح ہم بدلہ دیا کرتے ہیں نیکی کرنے والوں کو
ربط آیات اس سورة کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی قبل از نبوت زندگی کے حالات بیان فرمائے ہیں اور آپ پر کیے گئے بعض انعامات کا ذکر کیا ہے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ہی نامساعد حالات میں ہوئی جب کہ فرعون اسرائیلیوں کے نوزائیدہ بچوں کو قتل کروا دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی فرمائی کہ فرعون کے دشمن موسیٰ (علیہ السلام) کی کسی کے گھر میں شاہانہ طریقہ پر پرورش فرمائی۔ پہلے اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی برآمدگی کے بعد آپ کی رضاعت کا واقعہ بیان کیا ہے کہ کس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے آپ کا پیچھا کیا اور پھر رضاعت کے لیے اپنی ماں کا پتہ بتایا ۔ اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو نہ صرف اپنی والدہ کے پاس واپس لوٹا دیا گیا بلکہ اسے دودھ پلانے کی اجرت اور دیگر انعام و اکرام بھی ملنے لگا ۔ اس مقام پر اللہ نے فرمایا ہے وحرمنا علیہ لمرضع ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) پر دودھ پلانے والیوں کو حرام قرار دے دیا جس کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کسی غیر عورت کا دودھ نہیں پیتے تھے ، گزشتہ درس میں عرض کیا تھا کہ یہاں پر حرام سے مراد شرعی حرام نہیں بلکہ محض ممنوع مراد ہے ، اور اسکی مثالیں قرآن میں دوسری جگہوں پر بھی موجود ہے ، جیسے سورة الانبیاء میں فرمایا ہیوَحَرٰمٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰـہَآ اَنَّہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ ( آیت : 59) جس بستی کو ہم ہلاک کردیں ہم نے اس کو ممنوع کردیا ہے کہ وہ پلٹ کر نہیں آئیں گے ۔ امام قشیری (رح) نے لکھا ہے کہ ایک سوئے ہوئے درویش کو دیکھ کر دوسرے بزرگ نے کہا ؎ عجباً للمحب کیف ینام کل نوم علی المحب حرام تعجب کی بات ہے کہ ایک درویش سو رہا ہے کیونکہ ایسے لوگوں پر تو ہر قسم کی نیند ممنوع ہے۔ اللہ والے تو ظاہر و باطن میں ہر وقت بیداررہتے ہیں ، ان پر تو کسی وقت بھی نیند طاری نہیں ہوتی ۔ سعدی (رح) نے بھی اسی قسم کی بات کی ہے ؎ متی یرجع نومی و قزری وان علی لعاشق ھذا ان خرمان اے میرے دوست ! میری نیند اور میرا قرار کب واپس لوٹ کر آئیگا کیونکہ عاشق محبت لوگوں پر تو یہ دونوں چیزیں حرام ممنوع ہوتی ہے۔ یہاں بھی حرام سے مراد شرعی حرام نہیں بلکہ ممنوع قرار ہے۔ بچپن سے جوانی تک بہر حال موسیٰ (علیہ السلام) کی رضاعت کا زمانہ گزر گیا جب آپ اپنی والدہ کی پرورش سے فارغ ہوئے تو شاہی محل میں شہزادوں کی طرح رہنے لگے ۔ وقت گزرتا گیا حتیٰ کہ ولما بلغ اشدہ وستوی جب آپ قوت یعنی جوانی کو پہنچ گئے اور اچھی طرح سنبھل گئے ۔ یہ آپ کا عالم شباب تھا جو عمر تیس 03 سے تینتیس 33 سال کی عمر کا زمانہ ہوتا ہے ۔ اہل جنت کے متعلق بھی آتا ہے کہ وہ ہمیشہ عمر کے اسی زمانہ میں رہیں گے اور کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے ۔ ہم اس سے موسیٰ (علیہ السلام) اس عمر کو پہنچے تو اللہ نے فرمایا اتینہ حکما و علما تو ہم نے ان کو حکمت یعنی دانائی اور علم یعنی سمجھ عطا کی ۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر جوانی کا عالم تھا۔ قد کاٹھ بھی لمبا اور چست و چالاک چھریرا بدن تھا یعنی موٹاپے کا بھاپن نہیں تھا۔ حضور ﷺ نے معراج کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میری ملاقات موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی تو انہیں یمن میں آباد قبیلہ ازد شنوۃ کے نوجوانوں کی طرح دراز قد اور پھرتیلے جسم کا حامل پایا ۔ بہر حال فرمایا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) عالم شباب کو پہنچے تو ہم نے انہیں دانائی اور سمجھ عطا فرمائی ۔ تیس سال کی عمر میں اللہ نے یہ دو چیزیں ہی عطا کیں جب کہ نبوت چالیس سال کی عمر میں ملی جب آپ مدین سے واپس منہ کی طرف آ رہے تھے ۔ اس قسم کے انعام کا ذکر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی ملتا ہے۔ اللہ نے فرمایا ولقد اتینا ابراہیم رشدہ من قبل ( الانبیائ : 5) ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو پہلے سے ہی یعنی اوائل عمل سے ہی کمال درجے کی سمجھ عطا فرمائی۔ آپ اللہ تعالیٰ کی ذات کو خوب پہچانتے تھے اور آپ کو توحید خداوندی پر پورا پورا اعتماد تھا۔ اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اللہ نے حکمت اور سمجھ عطا فرمائی وکذلک نجزی المحسنین فرمایا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں قتل موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے محل میں رہتے ہوئے وہاں کے ہر حسن و قبیح کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور آپ کی حکمت و سمجھ کا تقاضا یہ تھا کہ آپ یہ بری چیز کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ، ظلم و ستم کے خلاف نہ صرف آواز بلند کرتے تھے بلکہ اسے بزور روکنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اسی دوران میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ودخل لمدینۃ علی حین عفلۃ من ھلھ کہ موسیٰ (علیہ السلام) ایسے وقت میں شہر میں داخل ہوئے جب وہاں کے باشندے غفلت کی حالت میں تھے یعنی جب لوگ کاروبار سے فارغ ہو کر عام طور پر آرام کرتے ہیں ۔ یہ وقت دوپہر کا بھی ہو سکتا ہے ، رات کا بھی یا علی الصبح کا بھی جب لوگ ابھی نیند سے بیدار نہیں ہوتے ۔ تو ایسے وقت میں آپ شہر میں داخل ہوئے یہ کون سا شہر تھا ؟ کہتے ہیں کہ اس شہر کا نام منوف یا منصف 1 ؎ تھا جو فرعون کے دارالحکومت سے دس بارہ میل کے فاصلے پر تھا۔ یہ فرعون کا خصوصی علاقہ تھا جسے جشن کا نام دیا گیا ہے۔ 1 ؎۔ قرطبی ص 952 ج 31 و ابو مسعود ص 841 ج 4 ( فیاض) یہاں پر قطیوں کے علاوہ اسرائیلوں کی بستیاں بھی تھیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ بھی یہیں رہتی تھیں لہٰذا آپ گاہے بگاہے وہاں چلے جاتے تھے۔ اس علاقے میں فرعونیوں نے اسرائیلیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رکھے تھے۔ تمام مشقت کے کام ان سے لیتے تھے اور انکی حیثیت غلاموں سے بھی بدتر تھی ۔ موسیٰ (علیہ السلام) یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور حتی الامکان مظلوموں کی مدد بھی کرتے۔ تو جب آپ اس شہر میں داخل ہوئے فوجہ فیھا رجلین یقتتلن تو آپ نے وہاں دو آدمیوں کو آپس میں لڑتے جھگڑتے پایا ھذا من شیعتۃ ان میں سے ایک آدمی موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں میں سے یعنی اسرائیلی خاندان سے تھا۔ وھذا من عدوہ اور دوسرا شخص دشمن گروہ یعنی قبطی خاندان سے تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ شخص فرعون کا کارندہ تھا۔ یعنی اس کے باورچی خانے کا نگران تھا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے گزرے فاستغاثہ الذی من شیعتہ علی الذی من عدوہ تو مدد طلب کی موسیٰ (علیہ السلام) سے اس شخص نے جو ان کی پارٹی سے تھا اس کے خلاف جو ان کی دشمن جماعت سے تھا۔ استغاثہ کا معنی فریاد کرنا یا مدد طلب کرنا ہوتا ہے۔ اسرائیلی مظلوم تھا تو اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مدد طلب کی ، موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی دیکھا کہ قبطی واقعی اسرائیلی پر زیادتی کر رہا تھا ۔ لہٰذا آپ نے آگے بڑھ کر مظلوم کو ظالم کے نیچے سے چھڑانا چاہا مگر مؤخر الذکر اس کے لیے تیار نہ تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے رہا نہ گیا فوکزہ موسیٰ تو آپ نے اس کو ایک گھونسہ رسید کیا ۔ اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) کا ارادہ قبطی کو جان سے مارنا نہیں تھا مگر اس کو وہ ضرب ایسی کاری لگی قفضی علیہ کہ قبطی کا کام تمام ہوگیا یعنی وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا ۔ شیطانی عمل چونکہ یہ حادثہ موسیٰ علیہ لسلام کی نیت اور ارادے کے بالکل خلاف پیش آ گیا تھا۔ لہٰذا آپ نے فوراً کہہ دیا قال ھذا من عمل الشیطن کہ یہ تو شیطان کے کام سے ہے ، اس کو شیطانی عمل اسی لیے کہا کہ شیطان ایسے کام پر بڑا جوش ہوتا ہے جس کے ذریعے فتنہ و فساد برپا ہونے کی امید ہو ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ نماز کی حالت میں اگر کسی شخص کو کوئی زخم آجائے نکسیر پھوٹ جائے یا عورت کو حیض آنے لگے تو یہ شیطانی فعل ہوتا ہے کہ اس سے شیطان بڑاخوش ہوتا ہے کہ کسی کی نماز میں خلل واقع ہوا ۔ موسیٰ اور یوشع (علیہ السلام) کے سفر کے واقعہ میں بھی آتا ہے کہ جب وہ دونوں اپنی منزل سے آگے نکل گئے اور پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے ناشتہ طلب کیا تو یوشع (علیہ السلام) کہنے لگے کہ میں مچھلی والاواقعہ تو بھول ہی گیا ۔ وَمَآ اَنْسٰنِیْہُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْکُرَہٗ (الکہف : 36) اور مجھے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ، چونکہ یہاں بھی اللہ کے نیک بندوں کو سفر کی زید مشقت برداشت کرنا پڑی۔ جس سے شیطان خوش ہوا ، لہٰذا اسے بھی شیطانی عمل کہا گیا ہے بہر حال موسیٰ (علیہ السلام) نے قبطی کے قتل کو شیطان کی طرف منسوب کیا ۔ اور فرمایا انہ عدو مفصل مبین بیشک شیطان انسان کا صریح دشمن اور کھلے طور پر بہکانے والا ہے۔ انسان کو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ لغزش کی معافی اگرچہ قبطی کا قتل قتل عمد نہیں بلکہ قتل خطا تھا مگر موسیٰ (علیہ السلام) اس پر بھی بحث پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) بیان القرآن میں لکھتے ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) چونکہ اللہ کے مقرب بندے ہوتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کو ان کی خصوصیت تربیت مطلوب ہوتی ہے ، لہٰذا وہ ان کی معمولی لغزشوں پر بھی سخت گرفت کرلیا ہے ۔ دیکھ لیں حضرت یونس (علیہ السلام) سے ذرا سی لغزش ہوئی تھی تو اللہ نے انہیں کس قدرابتلا میں ڈالا ۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اسی غیر ارادی قتل پر اپنی غلطی کا اعتراف کیا ۔ قال رب انی ظلمت نفسی کہنے لگے پروردگار ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے۔ مجھ سے یہ لغزش واقع ہوگئی ہے۔ فاغفرلی لہٰذا مجھے معاف کر دے ۔ اگرچہ یہ گناہ نہیں تھا مگر ایک جان تو چلی گئی تھی۔ لہٰذا آپ نے سخت ندامت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کی فغفرلہ تو اللہ نے آپ کو معاف کردیا ۔ جو لوگ اس عمل کو گناہ کہتے ہیں وہ درست نہیں ہیں کیونکہ گناہ تو نیت اور ارادے کے ساتھ ہوتا ہے۔ ارادے کے بغیر تو خطا ہو سکتی ہے یا نسیان ہو سکتا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے بھی ایک خطا ہوئی تھی کہ وہ اللہ کے حکم کے بر خلاف شجرممنوعہ کا پھل کھا بیٹھے مگر فنسی ولم نجدلہ عزما ً (طہٰ : 511) اللہ نے فرمایا کہ وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں عزم و استقلال نہ پایا۔ بہر حال موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کے سامنے عاجزی کی کیونکہ وہ بڑی شخصیت تھے اور ایسے لوگوں کی ابتداء سے ہی بہترین تربیت مقصود ہوتی ہے۔ ابنیاء نبوت سے پہلے بھی ایمان والے اور ولی کامل کے درجے میں ہوتے ہیں ۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) نبوت سے پہلے قطب باطنی کے درجے میں ہوتے ہیں ۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے اس فعل کی معافی بھی دے دی۔ ا س قسم کی معافی کا علم دیگر نیک لوگوں کی طرح بذریعہ الہام یا بذریعہ خواب ہو سکتا ہے یا پھر نبوت ملنے کے بعد بذریعہ وحی بھی ہو سکتا ہے ، تو اللہ نے معافی کردیا انہ ھو لغفور رحیم بیشک وہ بخشش کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔ مجرموں کی پشت پناہی اس قتل خطا پر اللہ تعالیٰ سے معافی ملنے پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کا عجیب طریقے سے شکر ادا کیا ۔ پہلے اپنے آپ پر ہونے والے انعامات الٰہیہ کا ذکر کیا قال رب بما انعمت علی کہا اے میرے پروردگار ! جس طرح تو نے مجھ پر انعام کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتنے ہی انعامات کیے تھے۔ پہلے دشمن کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچایا ۔ پھر اپنی طرف سے لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دی ، جو دیکھتا گرویدہ ہوجاتا ۔ اور اسی وجہ سے آپ کی جان بچ گئی ۔ آپ کو حکمت اور سمجھ عطا فرمائی ، نبوت سے سرفراز فرمایا عظیم المرتبت کتاب دی ، اپنے کلام سے مشرف فرمایا ۔ پھر خلاف سے بھی عطا فرمائی ۔ سورة الصفت میں ہے وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰی مُوْسٰی وَہٰـرُوْنَ (آیت : 411) ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) دونوں پر احسان فرمایا ۔ ان کو ظالم قوم سے نجات دی ، ان کی مد د کرکے انہیں غالب بنایا ، کتاب دی اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائی ان انعامات کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کا شکریہ اس طرح ادا کیا فلسن اکون ظھیراً للمجرمین کہ میں کبھی مجرموں کا پشت پناہ نہیں بنوں گا ۔ یعنی آئندہ کبھی کسی مجرم کی حمایت نہیں کروں گا۔ یہاں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے حمایت تو اسرائیلی آدمی کی تھی ، جو قبطی کے ظلم کا نشانہ بن رہا تھا اور ظاہر ہے کہ وہ جرم تو نہیں تھا بلکہ مظلوم تھا مگر یہاں پر وہ مجرموں کی اعانت سے دست کش ہو رہے ہیں ۔ مفسرین کرا م فرماتے ہیں کہ ان مجرموں سے مراد اسرائیلی نہیں بلکہ قبطی ہیں جو اسرائیلیوں پر طرح طر ح کے مظالم ڈھاتے تھے۔ جو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تے ان میں بھی قبطی ہی مجرم تھا جو اسرائیلی پر زیادتی کر رہا تھا ۔ ممکن ہے کہ اسرائیلی کا بھی کوئی قصور ہو ، اگر ایسا ہے تو اس کو بھی مجرمین کی فہرست میں داخل کرسکتے ہیں ، تا ہم فرعونی تو سارے کے سارے مجرم تھے ، جنہوں نے اسرائیلیوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ بہر حال موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ پروردگار ! تو نے مجھ پر اس قدر انعامات کیے ہیں تو میں ان کا شکریہ اسی طریقہ سے ادا کرسکتا ہوں کہ آئندہ کسی مجرم کی پشت پناہی نہیں کروں گا۔ اس آیت سے یہ قانون نکلتا ہے کہ اہل ایمان اور نیکی والے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ کبھی کسی مجرم کی پشت پناہی نہ کریں ، ایسا کرنے سے پورے معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجاتا جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے لعن اللہ من اوی محرثاً اس پر اللہ کی لعنت ہو جو کسی مجرم کو پناہ دیتا ہے۔ مجرم کو تو سزا ملنی چاہئے ، جو شخص اس کی سزا میں حائل ہونا چاہتا ہے وہ ملعون ہے ۔ چناچہ سلف صالحین نے کبھی کسی مجرم کا ساتھ نہیں دیا ۔ ائمہ کرام اور اولیاء اللہ ظالم حکمرانوں کو نصیحت تو کرتے رہے مگر ان کے ہاں میں ہاں ملا کر ظلم میں حصے دار نہیں بنے ۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے سودے کھانا منظور کیے۔ جیل گئے ، زخمی ہوئے مگر سرکاری ملازمت محض اس لیے قبول نہیں کی کہ حکمران صحیح نہیں تھے۔ آپ نے وقت کے کمانڈر انچیف کو نصیحت کی کہ ظلم نہ کرو ، ورن مآخوذ ہو گے تو اس نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ۔ اسی طرح امام مالک (رح) ، امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) نے بھی کسی ظالم حکمران کی پشت پناہی کی ۔ انہیں بڑی بڑی تکلیفیں دی گئیں مگر انہوں نے کبھی ناحق کا ساتھ نہیں دیا ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے کہ انبیاء کے مشن میں رفع التظالم من بین الناس بھی شامل ہے یعنی ان کا فرض ہے کہ لوگوں سے ظلم کو ہٹائیں ۔ جب ان کے مشن میں یہ چیز داخل ہے تو پھر وہ ظالم کی پشت پناہی کیسے کرسکتے ہیں ؟ آج ہماری سوسائٹی میں ظالم کی پشت پناہی رچ بس چکی ہے جس کی وجہ سے ہم طرح طرح کے مصائب کا شکار ہیں ، معاشرے میں فتنہ و فساد کا بازار گرم ہے ، کسی کی عزت ، مال اور جان محفوظ نہیں ۔ گھر گھر میں ڈاکے پڑ رہے ہیں ۔ شاہراروں پر لوٹ مار مچی ہوئی ہے قتل و غارت عام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان غنڈوں ، بد معاشوں اور چوروں کے پشت پناہ بڑے بڑے جاگیردار ہیں ۔ انہوں نے کرائے کے قاتل پال رکھے ہیں جو واردات کرنے کے بعد ان کی پناہ میں آ کر گرفت سے بچ جاتے ہیں ۔ پولیس کی طرف سے مجرموں کی پشت پناہی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ پورے معاشرے میں بےسکونی کی کیفیت ہے ۔ جب تک معاشرے سے مجرم کی پشت پناہی ختم نہیں ہوگی لوگ آرام کی نیند نہیں سو سکیں گے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں پر آہنی ہاتھ ڈالے اور مجرموں سے پہلے ان کے حمایتوں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ 1 ؎۔ حجۃ اللہ البالغہ ص 151 ج 1 (فیاض)
Top