Tafseer-e-Mazhari - Al-Qasas : 14
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ
وَلَمَّا : اور جب بَلَغَ اَشُدَّهٗ : وہ پہنچا اپنی جوانی وَاسْتَوٰٓى : اور پورا (توانا) ہوگیا اٰتَيْنٰهُ : ہم نے عطا کیا اسے حُكْمًا : حکمت وَّعِلْمًا : اور علم وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیا کرتے ہیں الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
اور جب موسٰی جوانی کو پہنچے اور بھرپور (جوان) ہو گئے تو ہم نے اُن کو حکمت اور علم عنایت کیا۔ اور ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں
ولما بلغ اشدہ واستوی اتینہ حکما وعلما . اور جب موسیٰ اپنی بھرپور طاقت (یعنی کامل جوانی) کو پہنچ گئے اور (قوت عقلیہ کے لحاظ سے) درست ہوگئے تو ہم نے ان کو حکمت و علم عطا کیا۔ اَشُدَّ ‘ شِدَّتَکی جمع ہے جیسے انعم ‘ نِعمَت کی۔ شدت کا معنی ہے قوت ‘ اَشُدَّکو پہنچنے کا یہ مطلب ہے کہ ایسی طاقت (جوانی) کو پہنچ گئے جو نمو کی آخری حد تھی۔ کلبی نے کہا : اَشُد کی عمر 18 سے 30 سال تک ہے۔ مجاہد وغیرہ کے نزدیک 33 سال کی عمر اَشُد کی عمر ہے۔ اِسْتَوٰی یعنی ان کی عقل ٹھیک ہوگئی۔ مراد یہ ہے کہ چالیس سال کی عمر ہوگئی۔ کذا روی سعید بن جبیر عن ابن عباس۔ بعض کے نزدیک اِسْتَوٰی کا یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی جوانی کی انتہا کو پہنچ گئے۔ حُکْمًا یعنی نبوت ‘ عِلْمًا یعنی اللہ اور اس کے احکام کی معرفت۔ بعض کے نزدیک اس سے نبی بنانا مراد نہیں ہے کیونکہ نبوت تو مصر سے ہجرت کرنے کے بعد مدین سے واپسی میں ملی تھی بلکہ اس سے مراد ہے دانش اور احکام شرعی کا علم۔ میں کہتا ہوں : واؤ مطلق عطف کے لئے آتا ہے ‘ ترتیب کے لئے ضرورت نہیں۔ نبوت اگرچہ ہجرت کے بعد ملی تھی لیکن اس جگہ پہلے ذکر کرنا اس وعدہ کی تکمیل کو ظاہر کر رہا ہے جو آپ کی والدہ سے اللہ نے فرمایا تھا اور ارشاد فرمایا ہے : اِنَّا رَآوُّدْہُ اِلَیْکِ وَجَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسِلِیْنَ ۔ وکذلک نجزی المحسنین . اور ہم نیکوکاروں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یعنی موسیٰ اور ان کی والدہ کو ان کی نیکوکاری کی ہم نے جزا دی۔ ایسی ہی جزا ہم نیکوکاروں کو دیا کرتے ہیں۔
Top