Baseerat-e-Quran - Al-Qasas : 14
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ
وَلَمَّا : اور جب بَلَغَ اَشُدَّهٗ : وہ پہنچا اپنی جوانی وَاسْتَوٰٓى : اور پورا (توانا) ہوگیا اٰتَيْنٰهُ : ہم نے عطا کیا اسے حُكْمًا : حکمت وَّعِلْمًا : اور علم وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیا کرتے ہیں الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی جوانی اور کمال شباب کو پہنچ گئے تو ہم نے انہیں علم و حکمت سے نوازا۔ اور ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 14 تا 17 بلغ (پہنچ گیا) ‘ اشد (قوت۔ جوانی) ‘ استوی (پورا ہوگیا۔ برابر ہوا) ‘ رجلین (رجل) دو مرد ‘ استغاث (اس نے فریاد کی) ‘ وکز ( مکامارا۔ گھونسا مارا) ‘ قضیٰ (پورا ہوگیا) ‘ ظھیر (مدد گار۔ مدد کرنے والا) ۔ تشریح : آیت نمبر 14 تا 17 : اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات زندگی ذرا تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پچیس تیس سال کے کڑیل جوان یعنی جسمانی ‘ عقلی اور قلبی اعتبار سے متوازن شخصیت بنکر ابھرے تو شاہی محل میں پرورش پانے کیوجہ سے چہرے پر رعب اور گفتگو میں ایک خاص وقار جھلکتا نظر آتا تھا۔ وہ اکثر بنی اسرائیل کی بستیوں میں تشریف لے جاتے اور اپنی آنکھوں سے حکمران طبقے قبطیوں کے ظلم و ستم کو دیکھتے تھے۔ ایک دن جب سڑکیں ویران اور سنسان پڑی ہوئی تھیں تو آ پنے دیکھا کہ ایک قبطی جو فرعون کے باور چیوں میں سے تھا اور ایک اسرائیلی آپس میں ایک دوسرے سے مار پیٹ کررہے ہیں۔ جب اسرائیلی نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آتے دیکھا تو اس نے قبطی کے ظلم و زیادتی سے بچنے کے لئے ان سے فریاد کی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس قبطی کو سمجھانے اور بیچ بچائو کرنے کی کوشش کی مگر اس قبطی پر اپنی برتری کا جنوں سوار تھا۔ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شان میں بھی گستاخانہ انداز اختیار کیا مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت تحمل اور برداشت سے کام لیا اور ایک دوسرے کو چھڑانے میں قبطی کے ایک گھونسا مارا تو وہ اس گھونسے کی تاب نہ لا کر مر گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بہت افسوس ہوا کیونکہ ان کا مقصد قبطی کو تنبیہ کرنا تھا قتل کرنا نہیں تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی وقت اللہ کی بار گاہ میں شرمندگی اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا الہٰی ! یہ جو کچھ بھی ہواوہ شیطان کی حرکتوں کا اثر ہے وہ شیطان جو انسان کا کھلا دشمن ہے۔ الہی مجھ سے زیادتی ہوگئی ہے مجھے معاف کر دیجئے۔ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں کی خطاؤں کو معاف کرنے والا مہربان ہے اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس غلطی کو معاف کردیا کیونکہ انہوں نے یہ قتل ارادہ اور قصد کے ساتھ نہیں کیا تھا بلکہ اپ تو دونوں میں صلح کرانے کی جدوجہد فرما رہے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی عرض کردیا الہی ! میرے اوپر تو آپ کے بہت احسانات ہیں اب میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ معاملے کی تحقیق ہونے تک کسی کی حمایت نہیں کروں گا۔ اس واقعہ کی بقیہ تفصیلات تو اس سے بعد کی آیات میں آرہی ہیں۔ ان آیات کے سلسلہ میں چند باتیں عرض ہیں۔ (1) یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ منصب نبوت پر فائز نہیں ہوئے تھے۔ (2) اگر کہیں آپس میں جھگڑا ہوجائے تو ان میں صلح صفائی کرانے کی کوشش کرنا نہایت ثواب کا کام ہے۔ (3) اگر کسی سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کو فوراً ہی اللہ سے معافی مانگ لینا چاہیے۔ اللہ اپنے بندوں پر اس قدر مہربان ہے کہ وہ اپنے بندوں کی خطاؤں کو معاف کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور عام طور پر وہ معاف فرمادیتا ہے۔ (4) جب تک معاملے کی پوری طرح تحقیق نہ ہوجائے اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ محض گمان پر فیصلہ کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ گمان محض ایک گمان ہی ہوا اور اصلیت کچھ بھی نہ ہو۔
Top