Mualim-ul-Irfan - Al-Hadid : 11
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ كَرِیْمٌۚ
مَنْ ذَا الَّذِيْ : کون ہے جو يُقْرِضُ اللّٰهَ : قرض دے گا اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ فَيُضٰعِفَهٗ : پھر وہ دوگنا کرے گا اس کو لَهٗ : اس کے لیے وَلَهٗٓ اَجْرٌ : اور اس کے لیے اجر ہے كَرِيْمٌ : عزت والا
کون شخص ہے جو اللہ کو قرض دیتا ہے اچھا قرض ، پس وہ اس کو دگنا دیگا ، اور اس کے لئے عزت والا اجر ہوگا
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے مال خرچ کرنے کا ذکر فرمایا اور واضح کیا کہ جو لوگ بوقت ضرورت خرچ کرتے ہیں ان کے لئے زیادہ اجر ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والے بعد میں اسلام قبول کرنے والوں سے بدرجہا افضل ہیں ۔ تمہارے اموال کا حقیقی مالک اور متصرف تو اللہ تعالیٰ ہے ، تاہم اس نے اپنی مہربانی سے تمہیں اس سے پہلے لوگوں کا نائب بنایا ہے اور خرچ کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا تمہیں اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ کے عطا کردہ مال کو بڑھ چڑھ کر خرچ کرنا چاہیے۔ یہ مال اللہ کی طرف سے تمہارے پاس بطور امانت ہے جس کے لوٹانے میں تمہیں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ قرض حسنہ کی ترغیب : انفاق فی سبیل اللہ ہی کی ترغیب ایک دوسرے انداز سے دی جارہی ہے۔ من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا وہ کون شخص ہے جو اللہ کو قرض حسن دیتا ہے فیضعقۃ لہ تاکہ وہ اس کو دگنا کردے۔ ولہ اجر کریم اور اس قرض حسن کے بدلے میں اس کے لئے عزت والا اجر ہوگا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حقیقت میں یہ فی الواقعہ قرض نہیں ہے بلکہ کنایہ کی زبان میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ کہ اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قرض دیتا ہے تو اس کو یقین ہوتا ہے کہ مقروض اتنی ہی رقم واپس لوٹا دے گا۔ مگر یہاں پر اللہ نے قرض سے دگنا مال واپس کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے تاکہ لوگ اس کار خیر کی طرف راغب ہوں۔ البتہ یہ بدلہ اس صورت میں ملے گا۔ جب کہ انفاق فی سبیل اللہ کے وقت ایمان ، اخلاص ، صحیح نیت اور صحیح موقع ومحل موجود ہو۔ ان شرائط کا ذکر اللہ نے قرآن کے مختلف مقامات پر کردیا ہے۔ یہ اصطلاح قرض نہیں ہے۔ شاہ عبدالقادر (رح) لکھتے ہیں کہ قرض کا معنی یہ ہے کہ تم اس وقت جہاد پر خرچ کرو۔ پھر تم ہی دولتیں برتو گے ، اور آخرت میں بڑے مرتبے پائو گے۔ دگنے کے یہی معنی ہیں ۔ آج خرچ کرو گے ، غلبہ حاصل ہوگا ، دولت تمہارے ہاتھ ہی میں رہیگی اور آخرت کا اجر بھی ملے گا۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ورنہ مالک اور غلام میں سود بیاج نہیں ہے ، انسان تو غلام ہیں ، وہ مالک کو کیا قرض دیں گے ؟ جو دیا سو اس کا جو نہ دیا سو اس کا۔ وہ تو سارا اس کا مال ہے لیکن خرچ کرنے سے یہ مراد ہے کہ دنیا میں بھی اس کا اچھا نتیجہ آئے گا اسلام اور قرآن کے نظام کو قائم کرنے کے لئے جو مال صرف کرو گے اس کے بدلے میں تمہیں سلطنت اور دولت حاصل ہوگی ، اور آخرت کا بدلہ الگ ہے خدا کوئی محتاج نہیں ہے جو قرض مانگ رہا ہے۔ قرض حسن وہ قرض ہوتا ہے جس میں نہ سود ہو اور نہ کوئی دیگر غرض وابستہ ہو۔ سورة المدثر میں فرمایا ولا تمنن تستکثر (آیت 60) یعنی کسی پر احسان کرکے مزید مفاد حاصل کرنا مقصود نہ ہو بلکہ محض مومن بھائی کی ضرورت پوری کرنا مقصود ہو۔ اس قرض حسنہ کا مقصد بھی ریاکاری یا غرض فاسد نہ ہو بلکہ اس سے اللہ کے ہاں سے اجروثواب مقصود ہو۔ اس کے برخلاف جو شخص اسلامی نظام کے قیام کے لئے حسب ضرورت مال صرف نہیں کرتا اس کا نام منافقوں کی فہرست میں لکھا جاتا ہے۔ اور ایسا شخص دنیا اور عقبیٰ میں نقصان اٹھانے والا ہوگا۔ اہل ایمان کے لئے نور : اگلی آیت میں اللہ نے نیکی کرنے والوں کا انجام بیان فرمایا ہے یوم تری المومنین والمومنت ، جس دن آپ دیکھیں گے۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو یسعی نور ھم بین ایدیھم وبایمانھم کہ ان کی روشنی ان کے آگے اور دائیں طرف دوڑتی ہوگی۔ یہ صورت حال حشر کے میدان میں پل صراط پر سے گزرتے وقت پیش آئے گی۔ اس وقت سخت اندھیرا ہوگا ، اور روشنی صرف ایمان اور نیک اعمال کی ہوگی جو مومنوں کے قلوب سے اٹھ رہی ہوگی۔ تاہم یہ روشنی علی قدر المراتب ہوگی۔ جس قسم کا کسی کا ایمان ہوگا ، اسی کے مطابق اس کی روشنی ہوگی۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی روشنی پہاڑ جتنی بڑی ہوگی اور بعض کی صرف ناخن کے برابر جو کہ کبھی جلے گی اور کبھی بجھ جائے گی۔ روشنی کا یہ تفاوت ایمان کی پختگی ، اخلاص اور اعمال میں تفاوت کی وجہ سے ہوگا۔ بہرحال ایمان کی روشنی تو اہل ایمان کے سامنے ہوگی اور اعمال صالحہ کی روشنی ان کی دائیں طرف ہوگی۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں سے کہا جائے گا۔ بشرئکم الیوم جنت تجری من تتہا الانھر خلدین فیھا ، تمہارے لئے بشارت ہے باغوں کی جن کے سامنے نہریں بہتی ہوں گی ، اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔ فرمایا ذلک ھوالفوز العظیم ، یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ جس کو حاصل گی۔ یہ اللہ کی رحمت جنت کا مقام ہے۔ جہاں ابدی نعمتیں میسر ہوں گی ، اور جہاں سے نکالے جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ وہاں پر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی شامل حال ہوگی۔ انسان کا وہاں پہنچ جانا بہت بڑی کامیابی ہے۔ منافقوں کی درخواست برائے نور : ایمان والوں کا حال ذکر کرنے کے بعد اللہ نے منافقوں کو کچھ حال بیان کیا ہے ارشاد ہوتا ہے یوم یقول المنفقون والمنفقت للذین امنوا ، جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے۔ انظر ونا نقتبس من نورکم ، ٹھہر جائو ، ہم بھی تمہاری روشنی میں سے کچھ لے لیں اور اس مشکل منزل کو عبور کرلیں۔ ادھر سے جواب آئے گا قیل ارجعوا ورائکم فالتمسوا نورا پیچھے لوٹ جائو اور وہاں سے روشنی تلاش کرو۔ وہ لوگ پیچھے کی طرف مڑ کردیکھیں گے کہ روشنی کہاں تقسیم ہورہی ہے۔ اتنے میں۔ فضرب بینھم بسورلہ باب ، ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس کا دروازہ ہوگا۔ باطنہ فیہ الرحمۃ اور اس کے اندر کی طرف خدا تعالیٰ کی مہربانی ہوگی وظاھرہ من قبلہ العذاب اور اس سے باہر عذاب ہوگا۔ سورة الاعراف میں اس فصیل کو اعراف کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ مشرک اور کافر لوگ تو پل صراط سے پرے گزرتے ہوئے پہلے ہی دوزخ میں گر چکے ہوں گے ، مگر امتی کہلانے والے خواہ وہ سچے مومن ہوں یا منافق ، رلے ملے ہوں گے اعراف کے مقام تک تو سب اکٹھے آئیں گے ، پھر ایمان والے تو اپنے ایمان اور نیکی کی روشنی میں اپنے اپنے مراتب کے مطابق تاریکی کو عبور کرلیں گے ، مگر دنیا میں فریب کاری سے کام لینے والے منافق لوگوں لوگوں کے پاس نور ایمان نہیں ہوگا لہٰذا وہ سچے ایمانداروں سے درخواست کریں گے کہ انہیں روشنی میں سے کچھ حصہ دیا جائے تاکہ وہ بھی منزل مقصود تک پہنچ جائیں ۔ اس وقت یہ کیفیت ہوگی کہ جونہی وہ پیچھے مڑر کر دیکھیں گے ان کے درمیان دیوار کھڑی کردی جائے گی۔ منافقین کی محرومی : بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ابتداء میں منافقین کو تھوڑی سی روشنی ملے گی ۔ جس کے ذریعے وہ تھوڑی دور چلیں گے مگر پھر اچانک وہ روشنی چھین لی جائے گی۔ کیونکہ دنیا میں بھی انہوں نے دھوکہ دہی کے لئے ظاہر میں کلمہ پڑھا تھا اور کچھ نیکی کے اعمال بھی انجام دیے تھے ، لہٰذا یہاں بھی انہیں تھوڑی سی روشنی دے کر پھر چھین لی جائے گی۔ پیچھے روشنی تلاش کرنے کا مطلب منافق لوگ یہ لیں گے کہ شاید یہاں کہیں تھوڑی دور روشنی تقسیم ہورہی ہے ، لہٰذا وہ پیچھے مڑکر دیکھیں گے ، مگر اہل ایمان کی پیچھے سے مراد یہ ہوگی کہ اس روشنی کا منبع تو دنیا میں تھا جہاں ایمان اور اعمال صالحہ کی بنا پر روشنی تقسیم ہوتی تھی۔ وہاں تو تم اس کو حاصل نہ کرسکے۔ اب یہاں تمہیں یہ روشنی نہیں آسکتی۔ الغرض ! منافق لوگ جنت میں نہیں جاسکیں گے۔ حصول نور کے ذرائع : قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں کہ جس روشنی کی ضرورت میدان حشر میں پڑیگی اس کے حصول کے بہت سے ذرائع اس دنیا میں ہی موجود ہیں۔ چناچہ صحیحین کی روایت میں آتا ہے ، لوگو ! اتقوا الظلم ، ظلم سے بچ جائو کیونکہ ظلم کی وجہ سے آخرت میں بڑے اندھیرے پیش آئیں گے۔ اس دنیا میں کردہ ہر گناہ کا الگ الگ اندھیرا ہوگا۔ ان اندھیروں کو عبور کرنے کے لئے ابن ماجہ اور ترمذی شریف میں حضور ﷺ کا فرمان ہے بشر المشائین فی الظلم الی المسجد بالنور التام یوم القیمۃ جو لوگ رات کی تاریکی میں مسجدوں کی طرف نماز کے لئے جاتے ہیں ، انہیں قیامت والے دن مکمل نور کی خوشخبری سنادو یعنی قیامت کے روز ان کی پوری روشنی ملے گی۔ دنیا میں انہوں نے اندھیرے میں ٹھوکریں کھائیں ، راستوں کی اونچ نیچ کی وجہ سے تکلیف اٹھائی ، بڑھاپے اور بینائی کی کمزوری کی وجہ سے انہیں نماز کی خاطر جانے کے لئے مشقت برداشت کرنا پڑی ، فرمایا ان کو مکمل روشنی کی بشارت سنادو۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے من حافظ علی الصلوٰت کانت لہ نورا وبرھانا ونجاتا جس شخص نے نمازوں کی حفاظت کی یعنی انہیں ضائع ہونے سے بچایا اس کے لئے قیامت والے دن روشنی ، دلیل اور نجات ہوگی۔ جب اس شخص کو کسی دلیل کی ضرورت پڑیگی۔ تو اس کی نمازیں اس کے لئے دلیل بن جائیں گی جس مقام پر اسے روشنی کی ضرورت ہوگی تو یہ نمازیں اس کے لئے روشنی کا مینار بن جائیں گی ، اور اس طرح اس کو عذاب سے نجات حاصل ہوجائے گی۔ اس کے برخلاف جس شخص نے نمازوں کی پرواہ نہ کی ، اس کے لئے نہ دلیل ہوگی ، نہ روشنی اور نجات ، اور اس کا حشر فرعون اور ہامان جیسے بڑے مجرموں کے ساتھ ہوگا۔ حدیث شریف میں حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان مبارک ہے کہ جو شخص بروز جمعہ مکمل سورة کہف کی تلاوت کریگا یا اس کی ابتدائی اور آخری دس دس آیات پڑھیگا اس کو قیامت والے دن روشنی میسر آئے گی۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اس کی قدموں سے لے کر مکہ مکرمہ تک کی مسافت کی روشنی ملے گی۔ بعض روایات میں زمین سے آسمان تک کی روشنی کا ذکر آتا ہے۔ نیز فرمایا کہ جو شخص سورة کہف کی ابتدائی یا کم از کم تین آیات تلاوت کرے گا۔ تو یہ تلاوت اس کے لئے دجال کے فتنے سے بچائو کا کام دیگی۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص اس سورة کی صرف ایک آیت ہی تلاوت کرے گا۔ اس کو بھی قیامت والے دن روشنی ملے گی۔ آپ کا یہ بھی ارشاد ہے الصلوٰۃ نور علی الصراط یعنی پل صراط پر نماز روشنی کا کام دے گی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جس نیک آدمی کی دنیا میں بینائی زائل ہوگئی اور اس نے گلہ شکوہ اور ناشکری کی بجائے صبر کا دامن تھامے رکھا ، تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے قیامت والے دن روشنی بنادیگا۔ بعض روایات میں حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی آتا ہے کہ جس شخص نے حج کے موقع پر اپنا سر منڈوایا تو اس کے ہر بال کے عوض قیامت والے دن اس کو روشنی ملے گی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ شیاطین کو کنکر مارنے کے عوض بھی اللہ تعالیٰ قیامت والے دن روشنی عطا کرے گا۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا من شاب شیبۃ فی سبیل اللہ جس شخص کے اللہ کے راستے میں جاتے ہوئے بال سفید ہوگئے اس کو قیامت والے دن نور ملے گا۔ نیز فرمایا من رمی بسھم فی سبیل اللہ ، جس شخص نے اللہ کے راستے میں اس کے دشمنوں پر تیر چلایا ، اس کو بھی قیامت والے دن نور ملے گا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا من نفس عن مسلم کر بۃ جس شخص نے کسی مسلمان کی پریشانی کو دور کیا۔ اس کو پل صراط سے گزرتے وقت اس قدر روشنی ملے گی جس میں ایک جہاں چل سکے گا۔ یہ اتنی بڑی روشنی ہوگی کہ جس کی مقدار کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے مراقبہ یا کشف کی حالت میں بعض اہل اللہ کی روحوں کو برزخ میں دیکھا جو شفاف پانی کے تالاب کی طرح نظر آتی تھیں۔ ایسا پانی کہ جو تھما ہوا ہو ، اور جب دوپہر کے وقت اس پر سورج کی کرنیں پڑیں تو سارا تالاب روشنی کا ایک ٹکڑا معلوم ہو ۔ اسی طرح بعض آدمیوں کو یاد الٰہی کی وجہ سے نور ہوگا۔ جو نور یاداشت کہلاتا ہے۔ یہ لوگ دنیا میں ہر وقت اپنے پروردگار کو یاد کرتے رہے۔ پھر اللہ کی مہربانی کا نور بھی ہے جو بعض لوگوں کو میسر ہوگا۔ مثلاً آپ دیکھ رہے ہیں کہ کوئی چھوٹا بچہ کنوئیں میں گر رہا ہے یا کسی موٹر کے نیچے آنے والا ہے ، آپ اس کو بچانے کے لئے دوڑتے ہیں ، تو بچے کے ساتھ اس مہربانی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا نور ملے گا۔ یہ سب نور کے ذرائع ہیں جو قیامت والے دن تاریکی میں کام آئیں گے۔ منافقوں اور مومنوں کا مکالمہ : جب منافق لوگ مومنوں سے روشنی حاصل کرنے میں ناکام ہوجائیں گے تو پھر انہیں دنیا کی زندگی میں اپنی معیت کی یاددہانی کرائیں گے ینادو نھم وہ مومنوں کو پکار کر کہیں گے کہ آج تم ہمیں اپنے نور کا کچھ حصہ دینے کے لئے تیار نہیں بھلا یاد تو کرو الم لکن معکم کیا ہم دنیا میں تمارے ساتھ نہیں تھے یعنی ہم تو اکٹھے ہی گھر میں یا پڑوس میں یا ایک ہی گائوں ، قصبے یا محلے میں رہتے تھے ، پھر آج تم ہمیں کس طرح فراموش کر رہے ہو۔ مومن جواب دیں گے قالو بلیٰ ، کہیں گے کہ بلاشبہ ہم اکٹھے ہی سکونت پذیر تھے ولکنکم فتنتم انفسکم ، لیکن تم نے اپنی جانوں کو فتنے میں مبتلا کرلیا۔ تم نے دنیا میں اخلاص کے ساتھ ایمان قبول نہ کیا۔ خالی زبانی کلمہ پڑھتے رہے اور دل میں پورا یقین نہ کیا۔ ظاہر ہے کفر ، شرک ، بدعات اور بداعتقادی کے فتنے بدترین فتنے ہیں۔ جس میں اکثر انسان مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تم نے ایمان کی بجائے نفاق کو اختیار کیا۔ وتربصتم اور انتظار کرتے رہے کہ کب سچے مسلمانوں پر افتاد پڑے۔ تم ہر جنگ کے موقع پر یہی امید لگائے بیٹھے تھے کہ اب کی بار مسلمان ضرور ختم ہوجائیں گے ۔ اور اسی بنا پر تم نے کافروں ، مشرکوں اور یہودیوں کے ساتھ ساز باز کر کھی تھی۔ وارتبتم اور تم شک میں پڑے ہوئے تھے کہ پتہ نہیں مسلمان سچے ہیں یا نہیں اور پتہ نہیں کہ یہ کامیاب بھی ہوں گے یا یونہی ختم ہوجائیں گے۔ وغرتکم الا مالی ، اور تمہیں جھوٹی آرزئوں نے دھوکے میں ڈالا ہوا تھا کہ فلاں پارٹی کے ساتھ مل جائیں گے اور فلاں سردار کی پناہ حاصل کرلیں گے اور پھر ہم مسلمانوں پر غالب آجائیں گے ، تم اسی طرح شکوک و شبہات اور خواہشات کے چکر میں پڑے ہوئے تھے حتی جآء امر اللہ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آگیا۔ یعنی یا تو مسلمانوں کو مکمل فتح حاصل ہوگئی اور یا پھر خود منافق کی موت واقع ہوگئی۔ اللہ نے فرمایا اصل بات یہ ہے۔ وغرکم باللہ الغرور کہ اے منافقو ! تمہیں اللہ کے بارے میں بڑے دھوکے باز یعنی شیطان نے دھوکے میں رکھا۔ وہ بڑا دھوکے باز ہے جو ہر طریقے سے انسان کو دھوکہ دے کر گمراہ کرتا ہے۔ وہ کبھی دین کے راستے سے آتا ہے………… اور کبھی مال کے راستے سے ، عرضی کہ کہ ہر راستے سے آکر انسان کو بہکاتا ہے اور پھر قیامت والے دن اسے ساتھ لے کر جہنم میں چلا جائے گا۔ منافقوں اور کافروں کا انجام : آگے اللہ نے منافقوں اور کافروں کا انجام بھی بیان فرمایا ہے۔ فالیوم لا یوخذ منکم فدیۃ ، آج کے دن اے منافقو ! تم سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا جس کے بدلے میں تم عذاب سے بچ جائو۔ ولا من الذین کفروا ، اور نہ ہی کفر کرنے والوں سے کوئی فدیہ لیا جائے گا۔ اور قیامت والے دن اول تو انسان کے پاس کوئی چیز ہوگی نہیں جو وہ فدیہ کے طور پر دے سکے۔ تاہم سورة المعارج میں اللہ کا ارشاد ہے کہ قیامت والے دن مجرم اپنے بیٹے ، بیوی ، بھائی اور قبیلہ حتیٰ کہ ومن…… …جمیعا (آیت 14) زمین کی ہر چیز کا فدیہ دے کر بھی عذاب سے پکڑنا چاہے گا تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔ فرمایا اس دن تم سے فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ وماولکم النار ھی مولکم ، تمہارا ٹھکانا دوزخ کی آگ ہوگا۔ اور وہی تمہارے لئے زیادہ لائق ہے۔ مولیٰ کے کئی معنی آتے ہیں تاہم یہاں مراد یہ ہے کہ دوزخ کی آگ ہی تمہارے زیادہ لائق ہے۔ اور اگر مولیٰ مولی کے مادہ سے ہو تو اس کا معنی ہوگا۔ ذلت پہنچانے والی چیز ، گویا دوزخ کی آگ سے تم ذلیل ہوجائو گے۔ وبئس المصیر ، اور یہ لوٹ کر جانے کی بہت بری جگہ ہے۔ مولیٰ کا معنی آقا بھی ہوتا ہے اور اس کا معنی دینے والا بھی۔ مولی کا معنی قسم اٹھانے والا ہوتا ہے۔ اسی سے ایلاء کا مسئلہ بھی نکلا ہے کہ کوئی شخص قسم اٹھائے کہ وہ چار ماہ تک بیوی کے قریب نہیں جائے گا۔ بہرحال اس کا زیادہ معروف معنی لائق ہی ہے اس کی مثال عربی ادب میں بھی ملتی ہے جیسے ایک شاعر نے کہا ہے۔ فغدت کلا الفرجین تحسب انہ مولی المخافۃ خلفھا واما مھا اس نے دونوں خلائوں کے بارے میں خیال کرلیا کہ دونوں خوف کے لائق ہیں ، یعنی آگے سے بھی خوف ہے اور پیچھے سے بھی خوف ہے۔ فرمایا اے منافق مردو اور عورتو ! نہ تم سے کوئی فدیہ لیا جائے گا اور نہ کافروں سے بلکہ دوزخ کی آگ ہی تمہارے زیادہ لائق ہے جس میں تمہیں ہمیشہ کے لئے رہنا ہوگا ، اور یہ لوٹ کر جانے کی بہت بری جگہ ہے۔
Top