Mutaliya-e-Quran - Al-Hadid : 3
هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ١ۚ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
هُوَ الْاَوَّلُ : وہی اول ہے وَالْاٰخِرُ : اور وہی آخر ہے وَالظَّاهِرُ : اور ظاہر ہے وَالْبَاطِنُ ۚ : اور باطن ہے وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ : اور وہ ہر چیز کو عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے
وہی اول بھی ہے اور آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے
[هُوَ الْاَوَّلُ : وہ سب سے پہلا ہے ][وَالْاٰخِرُ : اور آخری ہے ][وَالظَّاهِرُ : اور ظاہر ہونے والا ہے ][وَالْبَاطِنُ ۚ : اور پوشیدہ رہنے والا ہے ][وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ : اور وہ ہر چیز پر ][عَلِيْمٌ : علم رکھنے والا ہے ] (آیت ۔ 3) الا ول مادہ ” ء و ل “ سے افعل تفضیل میں افعل کے وزن پر اول بنتا ہے جو اول استعمال ہوتا ہے ۔ (دیکھیں آیت نمبر ۔ 2:49، مادہ ، ء و ل) اس لیے اس کے معنی ہیں سب سے پہلا ۔ جبکہ الاخر افعل و تفضیل نہیں ہے، ورنہ افعل کے وزن پر یہ اخر ہوتا ۔ اس لیے یہ فاعل کے وزن پر اسم الفاعل اخر ہے ۔ جس کے معنی ہیں پیچھے ہونے والا یا پیچھے رہنے والا ۔ یہ مفہوم اردو میں عموما لفظ آخری سے ادا ہوتا ہے۔ نوٹ ۔ 3: آیت ۔ 3 ۔ کی تفسیر اور اول و آخر اور ظاہر و باطن کے معانی میں مفسرین حضرات کے دس سے زیادہ اقول منقول ہیں ، جن میں کوئی تعارض نہیں ، سبھی کی گنجائش ہے۔ لفظ اول کے معنی تو متعین ہیں، یعنی وجود کے اعتبار سے تمام موجودات کے فنا ہونے کے بعد بھی وہ باقی رہے ۔ جیسا کہ سورة القصص کی آیت ۔ 88 ۔ میں ہے کہ ہرچیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے ۔ اور فنا سے مراد عام ہے خواہ عدم وجود واقع ہوجائے جیسے قیامت کے روز عام مخلوقات فنا ہوجائیں گی ، یا فنا کا وقوع نہ ہو مگر اس کا فنا اور عدم وجود ممکن ہو اور جس کے موجود ہونے کے وقت بھی اسے فانی کہہ سکتے ہوں، اس کی مثال جنت و دوزخ اور ان میں داخل ہونے والے اچھے برے انسان ہیں۔ ان کا وجود فنا نہیں ہوگا مگر فنا ہونے کے امکان سے پھر بھی خالی نہ ہوں گے ۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس پر کسی مفہوم سے نہ پہلے کبھی عدم طاری ہوا اور نہ آئندہ کبھی اس کا امکان ہے۔ اس لیے اس کو آخر کہہ سکتے ہیں ۔ اور ظاہر کا مطلب ہے کہ اس کی حکمت و قدرت کے مظاہر دنیا کے ہر ہر ذرہ میں نمایاں ہیں ۔ اس لحاظ سے اس عالم میں اس سے زیادہ کوئی چیز ظاہر نہیں ہے ۔ اور اپنی ذات کی حقیقت کے اعتبار سے وہ باطن ہے کیونکہ اس کی حقیقت تک کسی عقل و خیال کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ (معارف القرآن )
Top