Bayan-ul-Quran - Al-Hadid : 3
هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ١ۚ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
هُوَ الْاَوَّلُ : وہی اول ہے وَالْاٰخِرُ : اور وہی آخر ہے وَالظَّاهِرُ : اور ظاہر ہے وَالْبَاطِنُ ۚ : اور باطن ہے وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ : اور وہ ہر چیز کو عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے
وہی اول ہے وہی آخر ہے وہی ظاہر ہے وہی باطن ہے۔ اور وہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔
آیت 3{ ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ } ”وہی اول ہے ‘ وہی آخر ہے ‘ وہی ظاہر ہے ‘ وہی باطن ہے۔“ ایک انسان کے لیے اس کیفیت کو سمجھنا یقینا مشکل ہے کہ ہر زمان ‘ ہر مکان اگر وہ ہی وہ ہے تو پھر باقی سب کیا ہے۔ غالب ؔنے اس صورت حال سے متعلق انسانی حیرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے : ؎ جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟ اس آیت کے بارے میں امام رازی رح کا درج ذیل قول بہت فکر انگیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس آیت کو پڑھ کر وہ جلالِ ذات کے رعب کے باعث ساکت و ششدر ہوئے کھڑے ہیں۔ لکھتے ہیں : اِعْلَمْ اَنَّ ھٰذا المَقامَ مقامٌ غامِضٌ عمیقٌ مُہیبٌ”جان لو کہ یہ بہت مشکل ‘ بہت گہرا اور بڑا ُ پرہیبت مقام ہے !“ اس کی حقیقت کا سمجھنا آسان کام نہیں ہے۔ گویا بقول شاعر ع ”ہشدار کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را !“ اس راستے پر خبردار ہو کر چلنا ‘ اب تمہار اپائوں تلوار کی دھار پر آگیا ہے ! صوفیاء نے ”وحدت الوجود“ کا فلسفہ اسی آیت سے اخذ کیا ہے ‘ لیکن یہ فلسفے کا بھی مشکل ترین مسئلہ ہے۔ ”وحدت الوجود“ کی تعبیر میں کچھ لوگوں نے ”ہمہ اوست“ کا تصور گھڑا ہے جس کے کفر و شرک ہونے میں کسی اہل علم کو اختلاف نہیں ہے۔ بہرحال ”وحدت الوجود“ کے بارے میں یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ عام لوگوں کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ البتہ میں نے اپنے مذکورہ دروس میں اپنی حد تک اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم 1896۔ 1984 ئ سے مجھے اپنی اس وضاحت کی سند بھی مل چکی ہے۔ ایک مرتبہ اسی سورت کے میرے ایک درس میں پروفیسر صاحب بھی موجود تھے۔ درس کے بعد مجھ سے کہنے لگے کہ اس ”وحدت الوجود“ کے مسئلے کو پڑھتے پڑھاتے اور سمجھتے سمجھاتے مجھے پچاس برس ہوگئے ہیں ‘ لیکن آپ نے اس ایک درس میں اسے جس انداز میں واضح کیا ہے میں آج تک نہیں کرسکا۔ یہاں ان سطور میں اس مسئلے کی وضاحت کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ تفصیل معلوم کرنے کے خواہش مند حضرات سورة الحدید پر میرے متعلقہ دروس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ بہرحال اس آیت کا آسان مفہوم یہ ہے کہ یہ کائنات ”حادث“ ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ موجود نہیں تھی اور جب یہ موجود نہیں تھی اس وقت کون موجود تھا ؟ ظاہر ہے اللہ اس وقت بھی موجود تھا۔ تو اس کائنات کا آغاز کہاں سے ہوا ؟ اللہ سے ! پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اس کائنات میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ { کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ۔ } الرحمن ”جو کوئی بھی اس زمین پر ہے فنا ہونے والا ہے۔“ تو جب یہ سب کچھ نہیں رہے گا تو اس وقت کون موجود ہوگا ؟ { وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ۔ } الرحمٰن ”اور باقی رہے گا صرف تیرے رب کا چہرہ جو بہت بزرگی والا اور بہت عظمت والا ہے۔“ تو جب کچھ نہیں رہے گا تو اللہ اس وقت بھی موجود ہوگا۔ تو پھر ”آخر“ کون ہوا ؟ ظاہر ہے کہ اللہ ! اب یوں سمجھیں کہ اول اور آخر کے مابین ظاہر بھی وہ ہے اور باطن بھی وہ ہے۔ اس مشکل مضمون کو درج ذیل حدیث نے عام لوگوں کے لیے آسان کردیا ہے۔ حضور ﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے : اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْاَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ‘ رَبَّـنَا وَرَبَّ کُلَّ شَیْئٍ ‘ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ‘ وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ ‘ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْئٍ اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ ‘ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ اْلآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْئٌ 1 ”اے اللہ آسمانوں اور زمین کے رب ! اے عرش عظیم کے مالک ! اے ہمارے رب اور ہرچیز کے پروردگار ! اے دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے اور تورات ‘ انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے ! میں ہرچیز کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس کی پیشانی تیرے قبضہ قدرت میں ہے۔ اے اللہ ! تو ہی اوّل ہے ‘ پس تجھ سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اور تو ہی آخر ہے ‘ تیرے بعد کوئی چیز نہ ہوگی ‘ اور تو ہی ظاہر ہے ‘ تجھ سے بالاتر کوئی چیز نہیں ‘ اور تو ہی ایسا باطن ہے کہ تجھ سے مخفی کوئی چیز نہیں۔“ { وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ } ”اور وہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔“ جب ہر زمان ‘ ہر مکان وہ ہی وہ ہے ‘ وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی تو کائنات کی کوئی ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ کیسے ہوسکتی ہے ! بلکہ وہ تو انسان کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات سے بھی آگاہ ہے۔ اس حوالے سے سورة قٓ کی یہ آیت ہم پڑھ چکے ہیں : { وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔ } ”اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے ‘ اور ہم تو اس سے اس کی رَگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں“۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے ہرچیز پر قادر عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہونے کا اعلان ہوا ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیت میں اس کے علم ِکل ُ کا بیان ہے کہ اسے ہرچیز کا علم ہے وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دو صفات ایسی ہیں جن کا ذکر قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔
Top