Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 86
كَیْفَ یَهْدِی اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ وَ شَهِدُوْۤا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
كَيْفَ : کیونکر يَهْدِي : ہدایت دے گا اللّٰهُ : اللہ قَوْمًا كَفَرُوْا : ایسے لوگ جو کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : ان کا (اپنا) ایمان وَشَهِدُوْٓا : اور انہوں نے گواہی دی اَنَّ : کہ الرَّسُوْلَ : رسول حَقٌّ : سچے وَّجَآءَ : اور آئیں ھُمُ : ان الْبَيِّنٰتُ : کھلی نشانیاں وَاللّٰهُ : اور اللہ لَايَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
کیونکر راہ دے گا اللہ ایسے لوگوں کو کہ کافر ہوگئے ایمان لا کر اور گواہی دے کر کہ بیشک رسول سچا ہے اور آئیں ان کے پاس نشانیاں لے کر اور اللہ راہ نہیں دیتا ظالم لوگوں کو
خلاصہ تفسیر
(اول ان مرتدین کا بیان ہے جو کفر پر قائم رہ کر اس کو ہدایت سمجھتے رہے، چونکہ ان کا اعتقاد یا دعوی یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اب ہدایت فرمائی، لہذا ان کی مذمت میں اس کی نفی بھی فرماتے ہیں کہ بھلا) اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت کریں گے جو کافر ہوگئے بعد ایمان لانے کے (دل سے) اور بعد اپنے اس اقرار کے (زبان سے) کہ رسول ﷺ دعوی رسالت میں) سچے ہیں، اور بعد اس کے کہ ان کو واضح دلیل (حقانیت اسلام کے) پہنچ چکے تھے، اور اللہ تعالیٰ ایسے بےڈھنگے لوگوں کو ہدایت نہیں کیا کرتے (یہ مطلب نہیں کہ ایسوں کو کبھی توفیق اسلام کی نہیں دیتے، بلکہ مقصود ان کے اسی دعوی مذکورہ بالا کی نفی کرنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ ہم نے جو اسلام چھوڑ کر یہ طریق اختیار کیا ہے ہم کو خدا نے ہدایت دی ہے۔ خلاصہ نفی کا یہ ہوا کہ جو شخص کفر کا بےڈھنگا راستہ اختیار کرے وہ ہدایت خداوندی پر نہیں، اس لئے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھ کو خدا نے ہدایت دی ہے، کیونکہ ہدایت کا یہ راستہ نہیں ہے، بلکہ ایسے لوگ یقینا گمراہ ہیں اور) ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی بھی لعنت ہوتی ہے اور فرشتوں کی بھی اور (بہتیرے) آدمیوں کی بھی (غرض) سب کی (اور پھر وہ لعنت بھی ایسے طور پر رہے گی کہ) وہ ہمیشہ ہمیشہ کو اسی (لعنت) میں رہیں گے (اور چونکہ اس لعنت کا اثر جہنم ہے تو حاصل یہ ہوا کہ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور) ان پر سے عذاب ہلکا بھی نہ ہونا پاوے گا اور نہ (داخل ہونے سے قبل) ان کو (کسی میعاد تک) مہلت ہی دی جاوے گی (آگے ان کا بیان ہے جو پھر مسلمان ہوگئے ان کو اس حکم سے مستثنی فرماتے ہیں یعنی) ہاں مگر جو لوگ توبہ کرلیں اس (کفر) کے بعد (یعنی مسلمان ہوجاویں) اور اپنے (دل) کو (بھی) سنواریں (یعنی منافقانہ طور پر صرف زبان سے توبہ کافی نہیں) سو بیشک (ایسوں کے لئے) اللہ تعالیٰ بخش دینے والے رحمت کرنے والے ہیں، بیشک جو لوگ کافر ہوئے اپنے ایمان لانے کے بعد پھر بڑہتے رہے کفر میں (یعنی کفر پر دوام رکھا ایمان نہیں لائے) ان کی توبہ (جو کہ اور گناہوں سے کرتے ہیں) ہرگز مقبول نہ ہوگی (کیونکہ توب عن المعاصی ایک اطاعت فرعیہ ہے، اور اطاعت فرعیہ کے مقبول ہونے کی شرط ایمان ہے) اور ایسے لوگ (اس توبہ کے بعد بھی بدستور) پکے گمراہ ہیں۔ بیشک جو لوگ کافر ہوئے اور وہ مر بھی گئے حالت کفر ہی میں، سو ان میں سے کسی کا (بطور کفارہ) زمین بھر سونا بھی نہ لیا جائے گا، اگرچہ وہ معاوضہ میں اس کو دینا بھی چاہے (اور بےدیئے تو کون پوچھتا ہے) ان لوگوں کو سزائے دردناک ہوگی اور ان کے حامی (مددگار) بھی نہ ہوں گے۔
معارف و مسائل
ایک شبہ کا ازالہ
کیف یھدی اللہ الخ۔ اس آیت سے بظاہر یہ شبہ ہوتا ہے کہ کسی کو مرتد ہونے کے بعد ہدایت نصیب نہیں ہوتی، حالانکہ واقعہ اس کے خلاف ہے، کیونکہ بہت سے لوگ مرتد ہونے کے بعد ایمان قبول کر کے ہدایت یافتہ بن جاتے ہیں۔
جواب یہ ہے کہ یہاں جو ہدایت کی نفی کی گئی ہے اس کی مثال ہمارے محاورات میں ایسی ہے جیسے کسی بدمعاش کو کوئی حاکم اپنے ہاتھ سے سزا دے اور وہ کہے کہ مجھ کو حاکم نے اپنے ہاتھ سے خصوصیت عنایت فرمائی ہے، اور اس کے جواب میں کہا جائے کہ ایسے بدمعاش کو ہم خصوصیت کیوں دینے لگے، یعنی یہ امر خصوصیت ہی نہیں، اور یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ایسا شخص کسی طرح قابل خصوصیت نہیں ہوسکتا اگرچہ شائستہ بن جاوے۔ (بیان القرآن)
Top