Al-Qurtubi - Yunus : 25
وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ١ؕ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَاللّٰهُ : اور اللہ يَدْعُوْٓا : بلاتا ہے اِلٰى : طرف دَارِ السَّلٰمِ : سلامتی کا گھر وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہے اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔
آیت نمبر : 25۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واللہ یدعوا الی دار السلم “۔ جب اللہ تعالیٰ اس دار یعنی دار دنیا کا وصف ذکر کرچکا تو اس نے آخر کا وصف بیان فرمایا اور کہا : بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا جمع کرنے کی طرف دعوت نہیں دیتا بلکہ وہ تمہیں طاعت کی طرف بلاتا ہے تاکہ تم دارالسلام یعنی جنت کے اہل ہوجاؤ، حضرت قتادہ (رح) اور حسن نے فرمایا : السلام تو خود اللہ تعالیٰ ہے اور اس دار جنت ہے (1) (تفسیر طبری، سورة ، جلد 11، صفحہ 121) اور جنت کو دارالسلام کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ جو اس میں داخل ہوگیا وہ آفات سے محفوظ ومامون ہوجائے گا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اسماء میں سے ” السلام “ ہے، تحقیق ہم نے اسے الکتاب الاسنی فی شرح اسماء اللہ الحسنی “ میں بیان کیا ہے اور اس ذکر سورة الحشر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے اور اللہ تعالیٰ امن وسلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے، اور السلام اور السلام ۃ ایک ہی معنی میں ہیں جیسے الرضاع اور الرضاعۃ ہیں۔ یہ زجاج نے کہا ہے۔ شاعر کا قول ہے : تحی بالسلامۃ ام بکر وھل لک بعد قومک من سلام : اور کہا گیا ہے : مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دارالتحیہ کی طرف بلاتا ہے، کیونکہ اس کے باسی اللہ تعالیٰ کی جانب سے تحیہ اور سلام پائیں گے اور اسی طرح ملائکہ کی طرف سے بھی (سلام پائیں گے) حسن نے کہا ہے : بیشک اہل جنت سے سلام منقطع نہ ہوگا اور یہ ان کا تحیہ ہے، جیسا کہ فرمایا : (آیت) ” وتحیتھم فیھا سلام “۔ (یونس : 10) اور ان کی دعا یہ ہوگی کہ ” سلامتی ہو “ اور یحی بن معاذ نے کہا ہے : اے ابن آدم ! اللہ تعالیٰ تجھے دارالسلام کی طرف بلا رہا ہے سو تو دیکھ ہم اسے کہاں سے جواب دے رہے ہیں روک دیا جائے گا، اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : جنتیں سات ہیں : دارالجلال، دارالسلام، جنت عدن، جنۃ الماؤی، جنۃ الخلد، جنۃ الفردوس، اور جنۃ النعیم۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ویھدی من یشآء الی صراط مستقیم “۔ اپنی حجت کے اظہار لیے دعوت کو عام کیا اور اپنی سے استغنا برتتے ہوئے ہدایت کو خاص کردیا۔ اور صراط مستیقم کے بارے کہا گیا ہے کہ مراد کتاب اللہ ہے (2) (جامع ترمذی، فضائل القرآن، جلد 2، صفحہ 114، (مفہوم) اسے حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” صراط مستقیم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے “۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اسلام ہے۔ اسے نواس بن سمعان نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد حق ہے، یہ حضرت قتادہ (رح) اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد رسول اللہ اور آپ کے بعد آپ کے دونوں صحابی حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ ہیں، اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور فرمایا : ” میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) میرے سر کے پاس اور حضرت میکائیل (علیہ السلام) میرے پاؤں کے پاس کھڑے ہیں تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی کو کہا : ان کی مثال بیان کیجئے تو اس نے اسے کہا : تو سن تیرے کان سنیں اور اپنے دل کی عقل کے ساتھ اسے سمجھ بلاشبہ تیری اور تیری امت کے مثال اس بادشاہ کی مثل ہے جس کا ایک دار ہو پھر وہ اس میں گھر بنائے پھر اس میں ایک دعوت کا اہتمام کرے پھر وہ ایک قاصد بھیجے جو لوگوں کو اس کھانے کی دعوت دے پس ان میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے اس قاصد کی دعوت کو قبول کیا اور بعض وہ ہیں جنہوں نے اسے چھوڑ دیا پس اللہ تعالیٰ وہ بادشاہ ہے اور وہ دار السلام ہے اور وہ بیت (گھر) جنت ہے اور اے محمد ﷺ آپ وہ قاصد اور رسول ہیں پس جس نے آپ کی دعوت کو قبول کرلیا اور وہ اسلام میں داخل ہوگیا اور جو اسلام داخل ہوگیا وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جو جنت میں داخل ہوگا وہ اس سے کھائے گا جو کچھ (اللہ تعالیٰ کی نعمتیں) اس میں ہیں “۔ (1) (جامع ترمذی، کتاب الامثال، جلد 2، صفحہ 109، ایضا حدیث نمبر 2787، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پھر رسول اللہ ﷺ نے (آیت) ” ویھدی من یشآء الی صراط مستقیم “۔ تلاوت فرمائی، پھر حضرت قتادہ (رح) اور حضرت مجاہد (رح) نے یہ آیت تلاوت کی۔ (آیت) ” واللہ یدعوا الی دارالسلم “۔ اور یہ آیت قدریہ کے خلاف ان کے رد میں واضح اور بین دلیل ہے، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت دی ہے اور اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے : (آیت) ” ویھدی من یشآء الی صراط مستقیم “۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ پر نصوص قرآن کو واپس لوٹا دیا (اور انہیں قبول نہ کیا)
Top