Al-Qurtubi - At-Takaathur : 8
ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر لَتُسْئَلُنَّ : تم پوچھے جاؤگے يَوْمَئِذٍ : اس دن عَنِ النَّعِيْمِ : نعمتوں کی بابت
پھر اس روز تم سے (شکر) نعمت کے بارے میں پرسش ہوگی
پھر ضرور پوچھا جائے گا تم سے اس دن جملہ نعمتوں کے بارے میں۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ایک دن یا ایک رات باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر موجود ہیں، پوچھا : تمہیں اس وقت کس چیز نے گھروں سے نکالا ؟ دونوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! بھوک نے۔ فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ مجھے بھی اس چیز نے گھر سے نکالا ہے جس نے تمہیں نکالا ہے دونوں اٹھو، دونوں آپ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے رسول اللہ ایک انصاری کے گھر آئے تو وہ گھر پر نہیں تھا جب اس کی بیوی نے رسول اللہ کو دیکھا تو اس نے خوش آمدید کہا۔ رسول اللہ نے اس سے پوچھا : فلاں کہاں ہے ؟ اس نے عرض کیا : وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گیا ہوا ہے، اسی اثنا میں وہ انصاری بھی پہنچ جاتا ہے اس نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں صحابہ کو دیکھا پھر گویا ہوا : الحمدللہ آج مجھ سے بڑھ کر کوئی عزت والے مہمانوں والا نہیں۔ وہ گیا تو کھجور کا ایک خوشہ ان کے پاس لے آیا۔ عرض کی : اسے کھاؤ اور چھری لی رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : دودھ دینے والے جانور کو ذبح نہ کرنا۔ اس انصاری نے جانور ذبح کیا تو انہوں نے اس بکری اور اس خوشے سے کھانا کھایا اور پانی پیا۔ جب یہ حضرات خوب سیر ہوگئے تو رسول اللہ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ْ تم سے اس دن کی نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا، تمہیں تمہارے گھروں سے بھوک نے نکالا پھر تم نہ لوٹے یہاں تک کہ تمہیں اس نعمت نے آلیا۔ اسے امام ترمذی نے نقل کیا ہے اس میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں : ھذا والذی نفسی بیدہ من النعیم الذی تسالون عنہ یوم القیامۃ ظل بارد و رطب طیب وماء بارد۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں قیامت کے روز تم سے پوچھا جائے گا۔ ٹھنڈا سایہ، عمدہ تر کھجوریں اور ٹھنڈا پانی اور اس انصاری کی کنیت ذکر کی اور کہا : ابو ہیثم بن تیہان اور اس واقعہ کا ذکر کیا۔ میں کہتا ہوں : اس انصاری کا نام مالک بن تیہان تھا اس کی کنیت ابو ہیثم تھی اس واقعہ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن رواحہ اشعار کہتے ہیں اور ابو ہیثم بن تیہان کی مدح کرتے ہیں : فلم ار کالاسلام عزا لامۃ۔۔۔ ولا مثل اضیاف الا راشی معشرا میں نے کسی قوم کے لیے اسلام جیسی کوئی عزت نہیں دیکھی اور نہ میں نے اراشی کے مہمانوں جیسی کوئی جماعت دیکھی ہے۔ نبی و صدیق و فاروق امۃ۔۔۔ و خیر بنی حواء فرعا و عنصرا نبی، صدیق اور امت کا فاروق، بنی حواء میں سے عنصر کے اعتبار سے سب سے بہتر۔ فوافوا لمیقات و قدر قضیۃ۔۔۔ و کان قضاء اللہ قدرا مقدرا انہوں نے وعدہ و پیمان کا حق ادا کیا۔ اللہ کا فیصلہ ہو کر رہنے والا ہے۔ الی رجل نجد یباری بجودہ۔۔۔ شموس الضحی جو دا و مجدا و مفخرا نجد کے ایک معزز آدمی کی طرف جو اپنی سخاوت، بزرگی اور فخر میں چاشت کے سورجوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ و فارس خلق اللہ فی کل غارۃ۔۔۔ اذا لبس القوم الحدید المسمرا یہ غزوہ میں اللہ کی مخلوق کا شاہسوار ہے جب قوم گندمگوں نیزے زیب تن کرلیں۔ ففدی و حیا ثم ادنی قراھم۔۔۔ فلم یقرھم الا سمینا متمرا اس نے جانور ذبح کیا اسے تیار کیا پھر ضیافت ان کی خدمت میں پیش کی اس نے ان کی خدمت میں کھانا پیش نہیں کیا مگر موٹے موٹے ٹکڑے۔ ابو نعیم نے ابو عسیب سے جو رسول اللہ کے غلام تھے سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ رات کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے میں آپ کی طرف نکلا پھر آپ حضرت ابوبکر کے ہاں تشریف لے گئے انہیں بلایا تو وہ بھی آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے، پھر آپ حضرت عمر کے ہاں تشریف لے گئے انہیں بلایا وہ بھی آپ کی خدمت میں آگئے آپ چلے یہاں تک کہ ایک انصاری کے باغ میں داخل ہوئے آپ نے باغ کے مالک سے فرمایا : ہمیں بسر (کھجور) کھلاؤ، وہ ایک خوشہ لے آیا اور اسے رکھ دیا سب نے کھایا پھر آپ نے پانی طلب کیا اور اسے پیا۔ پھر فرمایا : تم سے قیامت کے روز اس بارے میں پوچھا جائے گا، کہا حضرت عمر نے وہ خوشہ لیا اسے زمین پر مارا یہاں تک کہ وہ بسر کھجوریں رسول اللہ کے سامنے بکھر گئیں عرض کی : یا رسول اللہ ہم سے قیامت کے روز اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ؟ فرمایا : ہاں مگر تین، وہ ٹکڑا جس کے ساتھ وہ اپنی بھوک مٹاتا ہے یا کپڑا جس کے ساتھ اپنی شرمگاہ ڈھانپتا ہے یا ایسی بل (گھر) جس میں وہ سردی اور گرمی میں پناہ لیتا ہے۔ وہ نعمت جس کے بارے میں سوال ہوگا علماء نے اس میں اختلاف کیا ہے اس کے بارے میں دس قول ہیں : 1۔ امن و صحت : یہ حضرت ابن مسعود کا قول ہے۔ 2۔ صحت و فراغت : یہ سعید بن جبیر کا قول ہے۔ بخاری میں رسول اللہ سے مروی ہے : نعمتان مغبون فیھما کثیر من الناس الصحۃ والفراغ۔ دو ایسی نعمتیں ہیں جن میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں صحت اور فراغت۔ 3۔ قوت سماعت اور قوت بصارت کے حواس کے ساتھ ادراک۔ یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ قرآن کریم میں ہے : ان السمع والبصر والفواء کل اولئک کان عنہ مسولا۔ (اسرائ) کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ صحیح میں حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید سے مروی ہے دونوں نے روایت کیا ہے رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے روز ایک بندے کو لایا جائے گا تو اسے کہا جائے گا : کیا میں نے تجھے کان، آنکھ، مال اور اولاد نہیں دی تھی ؟ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ اس بارے میں کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ 4۔ کھانے اور پینے والی چیزیں جن سے لذت حاصل کی جاتی ہے۔ یہ حضرت جابر بن عبداللہ بن کا قول ہے اور حضرت ابوہریرہ کی حدیث اسی پر دلالت کرتی ہے۔ 5۔ اس سے مراد دوبہر اور شام کا کھانا ہے۔ یہ حضرت حسن بصری کا قول ہے۔ 6۔ یہ محکول شامی کا قول ہے، اس سے مراد پیٹ بھر کر کھانا، ٹھنڈا پانی، گھروں کے سائے، اچھا اخلاق اور نیند کی لذت ہے۔ زید بن اسلم نے اپنے باپ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : اس سے مراد پیٹ بھر کر کھانا ہے۔ ماوردی نے کہا : یہ سوال کافر اور مومن کو عام ہے مگر مومن کا سوال یہ بشارت ہے کہ اس کے لیے دنیا اور آخرت کی نعمتیں جمع کردی گئی ہیں اور کافر سے سوال سے اس امر کے ساتھ جھنجھوڑنا ہے کہ اس نے دنیا کی نعمتوں کے مقابل کفر اور معصیت کو اپنایا۔ ایک قوم کا خیال ہے ؛ یہ سوال ہر نعمت کے بارے میں ہوگا اور کفار کے حق میں ہوگا۔ روایت بیان کی گئی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر نے عرض کیا : یا رسول اللہ بتایئے وہ کھانا جو میں نے آپ کے ساتھ ابو ہیثم بن تیہان کے گھر میں کھایا تھا جو کی روٹی، گوشت، آدھ کچی کھجور اور میٹھے پانی پر مشتمل تھا کیا اس بارے میں آپ ہمارے متعلق خوف کھاتے ہیں کہ یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے متعلق ہم سے باز پرس ہوگی ؟ تو رسول اللہ نے ارشاد فمرایا : یہ کفار کے لیے ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی ھل نجزی الا الکفور۔ (سبا) یہ قشیری ابو نصر نے ذکر کیا ہے دونوں روایات میں تطبیق یوں ہے کہ ہر کسی سے سوال کیا جائے گا تاہم کفار سے سوال انہیں شرمندہ کرنا ہے کیونکہ اس نے شکر کو ترک کیا اور مومن سے سوال اسے عزت بخشنا ہے کیونکہ وہ شکر بجا لایا تھا یہ ہر نعمت کے بارے میں ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ بہت اچھا قول ہے کیونکہ لفظ عام ہے ؛ فریابی نے یہ ذکر کیا، ورقاء، ابن ابی نجیح سے وہ مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں یہ قول نقل کرتے ہیں یعنی ہر وہ چیز جو لذت دنیا سے تعلق رکھتی ہو۔ ابو احوص، عبداللہ سے وہ نبی کریم سے روایت نقل کرتے ہیں : اللہ تعالیٰ قیامت کے روز بندے پر اپنی نعمتوں کو شمار کرے گا یہاں تک کہ اس پر یہ بھی شمار کرے گا تو نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ میں تیرا فلاں عورت سے نکاح کردوں اللہ تعالیٰ اس عورت کا نام ذکر کرے گا تو میں نے تیری اس سے شادی کردی۔ ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ہم سے کس نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا ہمیں تو پانی اور کھجور میسر ہے، دشمن سامنے حاضر ہے اور ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں ؟ فرمایا : ایسا ضرور ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : ان اول ما یسأل عنہ یوم القیامۃ انہ یقال لہ الم نصخ لک جسمک و نرویک من الماء البارد۔ قیامت کے روز سب سے پہلے انسان سے جس چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا وہ یہ ہوگا : کیا ہم نے تیرے جسم کو صحت مند نہیں رکھا تھا اور تجھے ٹھنڈا پانی نہیں پلایا تھا۔ حضرت ابن عمر کی حدیث، کہا : میں نے رسول اللہ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : جب قیامت کا دن ہوگا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی بندے کو بلائے گا اسے اپنے سامنے کھڑا کرے گا اس سے اس جاہ و حشمت کے بارے میں سوال کرے گا جس طرح اس سے اس کے مال کے بارے میں سوال کرے گا۔ جاہ و حشمت یقینا دنیاوی نعمتوں سے ایک ہے۔ امام مالک نے کہا : اس نعمت سے مراد بدن کی صحت اور عمدہ طبیعت ہے۔ یہ ساتواں قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ امن و عافیت کے ساتھ نیند ہے۔ سفیان بن عیینہ نے کہا : جو چیز بھوک مٹائے اور ستر عورت کا اہتمام کرے جبکہ وہ کھانا ایسا ہو جو حلق سے مشکل سے اترے اور لباس کھردرا ہو قیامت کے روز اس کے بارے میں باز پرس نہ ہوگی بلکہ اس سے ایسی چیزوں کے بارے میں باز پرس ہوگی جو لذت کا باعث ہوں۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو جنت میں سکونت عطا کی اور فرمایا : تیرے لیے یہاں یہ انعام ہے کہ تجھے نہ بھوک لگے اور نہ ہی تو بےپردہ ہوگا تو اس میں پیاسا نہ ہوگا اور نہ تجھے گرمی لگے گی۔ (طہ) یہ چار چیزیں ہیں۔ 1۔ جس کے ساتھ بھوک مٹائی جاتی ہے۔ 2۔ جس کے ساتھ پیاس ختم کی جاتی ہے۔ 3۔ جس کی مدد سے گرمی سے بچا جاتا ہے اور جس کے ساتھ پردہ کیا جاتا ہے۔ یہ حضرت آدم کے لیے مطلق تھیں ان کے بارے میں حضرت آدم کے لیے کوئی حساب و کتاب نہ تھا کیونکہ اس کے بغیر آپ کے لیے کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ میں کہتا ہوں : اس کی مثل قشیری ابو نصر نے ذکر کیا انہوں نے کہا : بندے سے ایسے لباس کے بارے میں باز پرس نہ ہوگی جس کے ساتھ وہ اپنی شرمگاہ چھپاتا ہے، ایسا کھانا جس کے ساتھ وہ اپنی کمر سیدھی کرتا ہے، ایسا مکان جو اسے سردی اور گرمی سے بچاتا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ قول رسول اللہ کے ایک ارشاد سے ماخوذ ہے، لیس لابن آدم حق فی سوی ھذہ الخصال بیت یسکنہ و ثوبہ یواری عورتہ و جلف اخبز والمائ۔ ابن آدم کا ان چیزوں کے علاوہ میں کوئی حق نہیں ایسا گھر جس میں وہ رہتا ہے، ایسا کپڑا جو اس کی شرمگاہ کو ڈھانپتا ہے، خشک روٹی کا ٹکڑا اور پانی، اسے ترمذی نے نقل کیا ہے۔ نضر بن شمیل نے کہا : خشک روٹی کا ٹکڑا جس کے ساتھ سالن نہ ہو۔ محمد بن کعب نے کہا : نعیم سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد کی صورت میں ہم پر انعام فرمایا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے۔ لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم۔ (آل عمران) تحقیق اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان میں انہیں میں سے رسول بھیجا۔ حضرت حسن بصری اور مفصل نے کہا : اس سے مراد ہے شرعی احکام میں نرمی اور قرآن حکیم کو آسان بنا دینا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وما جعل علیکم فی الدین من حرج۔ (الحج) اور نہیں روا رکھی اس نے تم پر دین کے معاملہ میں کوئی تنگی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ولقد یسرنا القرآن لذکر فھل من مد کر۔ (القمر) اور بیشک ہم نے آسان کردیا ہے قرآن کو نصیحت پذیری کے لیے پس ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا۔ میں کہتا ہوں : یہ سب نعمتیں ہیں بندے سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا کیا اس نے شکر کیا یا ناشکری کی، پہلے اقوال ظاہر و باہر ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
Top