Al-Qurtubi - At-Tawba : 82
فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا وَّ لْیَبْكُوْا كَثِیْرًا١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
فَلْيَضْحَكُوْا : چاہیے وہ ہنسیں قَلِيْلًا : تھوڑا وَّلْيَبْكُوْا : اور روئیں كَثِيْرًا : زیادہ جَزَآءً : بدلہ بِمَا : اس کا جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے تھے
یہ (دنیا میں) تھوڑا ساہنس لیں اور (آخرت میں) انکو ان اعمال کے بدلے جو کرتے رہے ہیں بہت سا رونا ہوگا۔
آیت نمبر 82 اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) فلیضحکو قلیلا یہ امر ہے اور یہ تہدید کے معنی کے لیے ہے اور یہ ہنسنے کے بارے امر نہیں ہے۔ اور اصل یہ ہے کہ اس میں لام مکسور ہوتا ہے پھر کسرہ کے ثقیل ہونے کی وجہ سے اسے حذف کردیا گیا۔ حسن۔ نے کہا : (آیت) فلیضحکو قلیلا انہیں چاہیے کہ وہ دنیا میں تھوڑا ہنسیں۔ (آیت) ولیبکو کثیرا اور زیادہ روئیں جہنم میں (2) (تفسیر طبری، جلد 10، صفحہ 228 ) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ امر بمعنی خبر ہے۔ ای انھم سیضحکون قلیلا ویبکون کثیرا (بےشک وہ عنقریب تھوڑا ہنسیں گے اور زیادہ روئیں گے) جزاء یہ مفعول من اجلہ ہے، ای الجزائ (سزا کے لیے ) مسئلہ نمبر 2۔ لوگوں میں سے بعض شدید خوف کی وجہ سے اپنے نفس کو بچانے کی خاطر اور اپنے اعتقاد میں اپنی حالت کے فساد سے بچنے کی خاطر ہنستے ہیں اگرچہ وہ آدمی نیک اور صالح ہو۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” قسم بخدا ! اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو یقینا تم تھوڑا ہنسو اور روئو زیادہ اور تم کھلے راستوں کی طرف نکل جائو اور تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑگڑانے لگو کہ میں پسند کرتا ہوں کہ میں ایک درخت ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا “ (3) (جامع ترمذی، کتاب الزہد، جلد 2، صفحہ 55 ) ۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔ اور حضرت حسن بصری ان میں سے تھے کہ کبھی آپ پر حزن وملال غالب ہوتا تو آپ نہ ہنستے تھے۔ اور ابن سیرین ہنستے تھے اور حسن کے خلاف حجت بیان کرتے ہوئے کہتے تھے : اللہ تعالیٰ نے ہنسایا بھی ہے اور رلایا بھی۔ اور صحابہ کرام ہنستے تھے، مگر یہ کہ اس میں کثرت کرنا اور اسے لازم پکڑنا یہاں تک کہ وہ اپنے صاحب پر غالب آجائے مذموم ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے۔ اور یہ بیوقوف اور بیکار لوگوں کا فعل ہے اور حدیث میں ہے :” بیشک زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے “۔ اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کے خوف، اس کے عذاب اور اس کی سزا کی شدت سے رونے کا تعلق ہے تو وہ قابل تعریف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :” تم رو اور اگر رونہ سکو تورونے کی شکل بنالو کیونکہ اہل جہنم روئیں گے یہاں تک کہ ان کے آنسو ان کے چہروں پر بہیں گے گویا کہ وہ نالیاں ہیں یہاں تک کہ آنسو ختم ہوجائیں گے پھر خون بہنے لگے گا اور آنکھیں زخمی ہوجائیں گی پس اگر ان میں کشتیاں چلائی جائیں تو وہ چل پڑیں “ (1) (معالم التنزیل، جلد 3، صفحہ 89۔ سنن ابن ماجہ، باب صفۃ النار، حدیث نمبر 4314، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اسے ابن المبارک نے حضرت انس ؓ کی حدیث سے اور ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے۔
Top