Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 82
فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا وَّ لْیَبْكُوْا كَثِیْرًا١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
فَلْيَضْحَكُوْا : چاہیے وہ ہنسیں قَلِيْلًا : تھوڑا وَّلْيَبْكُوْا : اور روئیں كَثِيْرًا : زیادہ جَزَآءً : بدلہ بِمَا : اس کا جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے تھے
سو تھوڑے دن ہنس لیں اور پھر (آخرت میں) بہت دن روتے رہیں ان کاموں کے بدلہ میں جو وہ کرتے رہتے ہیں،152 ۔
152 ۔ (اس دنیا میں جس کی عمر چند روزہ ہے) (آیت) ” فلیضحکوا قلیلا ولیبکوا کثیر ا “۔ ہنسنے کا تعلق اسی دنیا سے ہے اور رونے کا عالم آخرت سے جس کی مدت ختم ہونے والی نہیں۔ فلیضحکوا اور ولیبکوا گو صورۃ امر ہیں لیکن مراد یہاں صیغہ امر سے بھی محض خبر ہی ہے جو اپنے وقوع میں تمامتر یقینی ہے۔ والامر بالضحک والبکاء فی معنی الخبر (بحر) اخرجہ علی صیغۃ الامر للدلالۃ علی نہ حتم واجب (بیضاوی) (آیت) ” قلیلا وکثیرا “۔ قلیل میں اشارہ اس دنیا کی عارضی حیثیت کی جانب ہے اور کثیر میں آخرت کے دوام کی جانب، قلیلا اشارۃ الی مدۃ العمر فی الدنیا وکثیرا اشارۃ الی تابید الخلود (بحر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ بعض لوگ (آیت) ” ولیبکوا کثیر ا “۔ کو جو خبر بہ صورت انشاء اور آخرت سے متعلق ہے، صیغہ امر سمجھ کر اپنے مرشدوں سے شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں رونا نہیں آتا حالانکہ گریہ خشیت و محبت سے ہے تو محمود ضرور ہے لیکن محمود ہونا کسی فعل کے واجب ہونے کو مستلزم نہیں، احکام تو صرف امور اختیاری میں ہیں اور گریہ امر غیر اختیاری ہے۔ ؛
Top