Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 82
فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا وَّ لْیَبْكُوْا كَثِیْرًا١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
فَلْيَضْحَكُوْا : چاہیے وہ ہنسیں قَلِيْلًا : تھوڑا وَّلْيَبْكُوْا : اور روئیں كَثِيْرًا : زیادہ جَزَآءً : بدلہ بِمَا : اس کا جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے تھے
پس انھیں چاہیے کہ وہ کم ہنسیں اور زیادہ روئیں اپنے اعمال کی پاداش میں۔
فَلْیَضْحَکُوْاقَلِیْلًا وَّلْیَبْکُوْاکَثِیْرًا ج جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ( التوبۃ : 82) (پس انھیں چاہیے کہ وہ کم ہنسیں اور زیادہ روئیں اپنے اعمال کی پاداش میں۔ ) اپنے انجام پر روئیں یہ منافقین موسم کی گرمی سے بچ کر گھروں کے عافیت کدوں میں پناہ گزیں ہوجانا چاہتے ہیں۔ لیکن انھیں معلوم ہے کہ فرض کی جس پکار پر مسلمانوں نے جلا دینے والے اس موسم میں اتنے خطرناک اقدام کا فیصلہ کیا ہے اس میں پہلو تہی جہنم کی آگ کو دعوت دینے کے مترادف ہے اور یہ منافق اس آگ کو دعوت دے چکے ہیں کیونکہ انھوں نے پیچھے رہنے کو اپنی کامیابی سمجھ لیا ہے۔ اپنی اس حماقت پر اب انھیں خوش ہونے کی بجائے رونا چاہیے کیونکہ اپنے جس تخلف کو وہ کامیابی سمجھ رہے تھے اور اس پر خوشی کا اظہار کررہے تھے۔ وہی ان کے لیے جہنم کی آگ بڑھکانے کا سبب بن رہا ہے، جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ چند ساعتوں یا چند دنوں کے بعد میرے آرام میں گزرنے والے یہ چند لمحے ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ بننے والے ہیں اگر اس کے دماغ میں کچھ بھی عقل ہے تو وہ یقینا ماتم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جس طرح پھانسی کا قیدی پھانسی کے انتظار میں چند دن پھانسی کی کوٹھڑی میں گزارتا ہے لیکن اس کا ایک ایک لمحہ پھانسی کی کوٹھڑی میں کم اور پھانسی کے پھندے میں لٹکتے ہوئے زیادہ گزرتا ہے کیونکہ وہ اپنے ایک لمحے میں نہ جانے کتنی مرتبہ پھانسی کے پھندے کو گلے میں اترتا ہوا دیکھتا ہے۔ پھانسی کے پھندے پر جو اذیت ہوگی وہ تو ہوگی لیکن اس کے انتظار کی اذیت بھی اس سے کم نہیں۔ منافقین نے جہاد فی سبیل اللہ سے پیچھے رہ کر اپنے لیے پھانسی کا جو پھندا تجویز کیا ہے جو ان کے اعمال کی پاداش میں یقینا ان کے گلے میں طوق بننے والا ہے۔ اس کے انتظار کا ایک ایک لمحہ ایسا ہے جسے ہنستے ہوئے نہیں بلکہ انھیں رو کر گزارنا چاہیے۔
Top