Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 82
فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا وَّ لْیَبْكُوْا كَثِیْرًا١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
فَلْيَضْحَكُوْا : چاہیے وہ ہنسیں قَلِيْلًا : تھوڑا وَّلْيَبْكُوْا : اور روئیں كَثِيْرًا : زیادہ جَزَآءً : بدلہ بِمَا : اس کا جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے تھے
یہ (دنیا میں) تھوڑا سا ہنس لیں اور (آخرت میں) ان کو ان اعمال کے بدلے جو کرتے رہے ہیں بہت سا رونا ہوگا
فلیضحکوا قلیلاً ولیبکوا کثیرًا پس یہ ہنسیں گے کم اور روئیں گے بہت۔ یعنی جب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہ جانے کی وجہ سے یہ خوش ہوئے تو دنیا میں کچھ یا تھوڑی مدت کیلئے ہنس لیں گے اور آخرت میں بہت روئیں گے۔ فَلْیَضْحَکُوْا اور وَلْیَبْکُوْا اگرچہ امر کے صیغے ہیں لیکن مآل کار ان کو جن حالات سے دنیا اور آخرت میں دوچار ہونا تھا ‘ ان کی خبر دی گئی ہے ‘ یعنی امر بمعنی خبر ہے۔ خبر کو انشا کا جامہ پہنا کر پیش کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ایسا واقع ہونا یقینی اور قطعی ہے۔ ہنسنے اور رونے سے مراد یا تو حقیقی معنی ہیں یا بطور خوشی اور غم۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہنسنے اور رونے کا تعلق صرف آخرت سے ہو یعنی وہ آخرت میں کم ہنسیں گے ‘ زیادہ روئیں گے (لیکن منافقوں کو تو آخرت میں کم ہنسنا بھی نصیب نہ ہوگا ‘ اسلئے) کم سے مراد ہوگا بالکل عدم (قلت بمعنی عدم عربی میں آتا ہے) ۔ جزآء بما کانوا یکسبون وہ دنیا میں جو کچھ کماتے تھے ‘ اس کی پاداش میں مذکورۂ بالا سزا دی جائے گی۔ ابن ابی حاتم نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس نے فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلاً کی تفسیر میں فرمایا : دنیا قلیل ہے ‘ وہ یہاں جتنا چاہیں ہنس لیں ‘ جب دنیا ختم ہوجائے گی اور اللہ کے پاس پہنچیں گے تو ایسا رونا پڑے گا جو کبھی ختم نہ ہوگا ‘ دوامی ہوگا۔ ابن ماجہ ‘ ابو یعلی ‘ بیہقی اور ہناد نے حضرت انس کا قول نقل کیا۔ حضرت انس نے بیان کیا : میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ دوزخیوں کیلئے رونے کا ایک سیلاب چھوڑ دیا جائے گا۔ اتنا روئیں گے کہ آنسو ختم ہوجائیں گے ‘ پھر خون کا گریہ ہوگا ‘ پھر چہروں پر لمبے شگافوں اور خندقوں کی طرح (زخموں کے) نشان پڑجائیں گے (اتنے بڑے کہ) اگر ان میں کشتیاں چھوڑ دی جائیں تو بہنے لگیں۔ حاکم نے صحیح سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن قیس کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دوزخی اتنا روئیں گے کہ اگر ان کے آنسوؤں میں کشتیاں چلائی جائیں تو چل جائیں ‘ پھر وہ خون کے آنسو بہائیں گے۔ ابن ابی الدنیا اور ضیاء نے حضرت زید بن رفیع کی مرفوع روایت سے دوزخ کی حالت اس طرح بیان کی کہ دوزخی جب دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تو مدت تک آنسوؤں سے روتے رہیں گے ‘ پھر مدت تک لہو کے آنسوؤں سے روئیں گے۔ دوزخ کے فرشتے ان سے کہیں گے : اے بدنصیب گروہ ! تم نے دنیا میں (گناہ سے) رونا چھوڑ دیا۔ آج تمہارا فریاد رس کون ہے ؟ دوزخی چیخیں گے : ہمارے باپ اور ماؤ ! اور بیٹیو اور بیٹو ! ہم قبروں سے پیاسے نکلے اور جب تک وہاں رہے ‘ پیاسے رہے اور اب بھی پیاسے ہیں ‘ کچھ پانی ہماری طرف بھی بہا دو اور جو نعمت اللہ نے تم کو عنایت فرمائی ہے ‘ اس میں سے کچھ ہم کو بھی دے دو ۔ چالیس برس یونہی چلاتے رہیں گے اور کوئی جواب دینے والا نہ ہوگا ‘ پھر جواب ملے گا تو یہ ملے گا کہ تم کو یہیں رہنا ہے۔ آخر وہ ہر بھلائی سے ناامید ہوجائیں گے۔ میں کہتا ہوں : آیت کا تفسیری مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سب لوگوں کو دنیا میں کم ہنسنا چاہئے۔ یہ امر استحبابی ہے۔ زیادہ ہنسنا مکروہ ہے ‘ ہنسنے کی زیادتی دل کو مردہ کردیتی ہے اور دنیا میں ہی اللہ کے خوف سے خوب روئیں تاکہ جو گناہ ہوگیا ہو ‘ اس کی تلافی کی جائے ‘ رونے سے گناہ ساقط ہوجائیں۔ حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو کم ہنستے اور زیادہ روتے۔ رواہ احمد والشیخان فی الصحیحین والترمذی والنسائی وابن ماجہ۔ بخاری نے یہ حدیث حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بھی بیان کی ہے۔ حاکم نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابوذر کی روایت سے اس کو بیان کیا ہے ‘ اس میں اتنا زائد بھی ہے : اور تم کو کھانا گوارا ہوتا نہ پینا۔ طبرانی ‘ حاکم اور بیہقی نے حضرت ابو درداء کی روایت سے حسب ذیل الفاظ کے ساتھ حدیث مذکور نقل کی ہے : جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو بہت روتے ‘ کم ہنستے اور میدانوں میں نکل کر اللہ کے سامنے گڑگڑاتے۔ تم کو واقفیت نہ ہوتی کہ تمہاری نجات ہوگی یا نہ ہوگی۔ حاکم نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو زیادہ روتے ‘ کم ہنستے۔ نفاق ظاہر ہوجائے گا ‘ امانت اٹھ جائے گی ‘ رحمت سمیٹ لی جائے گی۔ امانت دار پر (خیانت کی) تہمت لگائی جائے گی ‘ جو امانت دار نہ ہوگا اس کو امین قرار دے لیا جائے گا۔ کالی رات کی طرح بڑے تاریک فتنے تم پر آپڑیں گے۔ بغوی نے اپنی سند سے لکھا ہے کہ حضرت انس نے بیان کیا : میں نے خود سنا کہ رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے : لوگو ! گریہ کرو ‘ اگر رونا نہ آئے تو روتی شکل اختیار کرلو کیونکہ دوزخی دوزخ میں اتنا روئیں گے کہ ان کے چہروں پر آنسو چھوٹی نہروں کی طرح بہیں گے ‘ آخر آنسو ختم ہوجائیں گے تو خون بہے گا (یعنی خون کے آنسو بہنے لگیں گے) اور چشمے پھوٹ نکلیں گے یہاں تک کہ اگر ان میں کشتیاں چلائی جائیں تو چل جائیں۔ امام احمد اور ترمذی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو ہنسے کم ‘ روتے زیادہ اور بستروں پر عورتوں سے لذت اندوز نہ ہوتے اور میدانوں میں نکل کر اللہ سے زاری کرتے۔ ابن ماجہ نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مؤمن بندہ اللہ کے خوف سے اپنی آنکھوں سے آنسو نکالتا ہے ‘ خواہ وہ آنسو مکھی کے سر کے برابر ہوں ‘ پھر آنسو نکلنے سے اس کو دکھ پہنچتا ہے تو اللہ اس کو دوزخ پر حرام کردیتا ہے۔
Top