Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 111
یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
يَوْمَ : جس دن تَاْتِيْ : آئے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص تُجَادِلُ : جھگڑا کرتا عَنْ : سے نَّفْسِهَا : اپنی طرف وَتُوَفّٰى : اور پورا دیا جائیگا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو عَمِلَتْ : اس نے کیا وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
(جس دن آئے گی ہر جان اپنی ہی مدافعت کرتی ہوئی اور ہر جان کو وہی پورا پورا بدلہ میں ملے گا جو اس نے کیا ہوگا اور ان کے ساتھ ذرا بھی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔
یَوْمَ تَاْتِیْ کُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِھَا وَتُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 111) (جس دن آئے گی ہر جان اپنی ہی مدافعت کرتی ہوئی اور ہر جان کو وہی پورا پورا بدلہ میں ملے گا جو اس نے کیا ہوگا اور ان کے ساتھ ذرا بھی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔ ) آخرت کی یاددہانی سابقہ آیات کریمہ میں دو طرح کے لوگوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے، ایک تو وہ لوگ ہیں جنھیں حُبِ دنیا نے اندھا کردیا ہے، ان کے یہاں آخرت کا تصور ایک بہلاوے کے سوا کچھ نہیں۔ وہ دنیا ہی کو اپنے ارمانوں کا مرکز سمجھتے ہیں اور یہیں کی خوشیاں اور غم ان کے لیے فیصلہ کن ہیں۔ اس بنا پر ان کی سوچ کا محور دنیا کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہوسکتا۔ جب کوئی شخص انھیں آخرت میں جواب دہی کے تصور سے ڈراتا ہے تو وہ اسے اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور حقیقت بھی یہ ہے کہ آخرت کا تصور دنیا کے عیش و عشرت کے لیے دشمنی سے کم نہیں، جسے آخرت کی فکر لگ گئی وہ دنیا کے کام کا نہ رہا۔ اور جو دنیا میں گم ہوگیا وہ آخرت کے کام کا نہ رہا۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے جب مشرکینِ مکہ کو زندگی کی حقیقت اور آخرت کا احساس دلانے کی کوشش کی تو وہ نہ صرف آنحضرت ﷺ کی دشمنی پر تل گئے بلکہ انھوں نے ان لوگوں کو بھی اسلام کی طرف آنے سے روکا جو اسلام کی طرف مائل ہورہے تھے، اور انھوں نے مکہ میں ایک ایسا ہراس (Panic) طاری کردیا کہ مسلمانوں کے لیے زندگی گزارنا آسان نہ رہا۔ لیکن دوسری طرف ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے مردانہ وار حالات کا مقابلہ کیا۔ جب اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ پر ایمان لے آئے تو قدم قدم پر اس کی قیمت بھی ادا کی۔ انھیں اس راستے میں بڑی سے بڑی آزمائش سے دوچار ہونا پڑا لیکن انھوں نے شکایت تک نہ کی۔ جب اہل مکہ ان کی جان کے درپے ہوگئے تو انھوں نے وطن چھوڑ کر ہجرت کا سفر اختیار کرلیا۔ اس جانگسل سفر میں ہر طرح کی مشقت برداشت کی لیکن صبر کا دامن ہرگز ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹا اور کبھی ان کو یہ خیال نہ ہوا کہ ہم جو قربانیوں کی تاریخ رقم کر رہے ہیں اس کا کچھ صلہ بھی ملے گا یا نہیں۔ پیش نظر آیت کریمہ میں دونوں کے حوالے سے ایک بات فرمائی جارہی ہے کہ لوگوں کو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اس دنیا کو ایک روز ختم ہونا ہے اور پھر قیامت کو وقوع پذیر ہونا ہے۔ وہاں ظالم بھی پیش ہوں گے اور مظلوم بھی۔ ظالموں کو ظلم پر سزا ملے گی اور مظلوم اپنی مظلومیت کا صلہ پائیں گے۔ کفار کو یہ سمجھ کر دلیر نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں اور ہم ہمیشہ جو چاہیں سو کرتے رہیں گے۔ اور اہل حق کو کبھی یہ نہ سوچنا چاہیے کہ ہماری قربانیاں رائیگاں جائیں گی۔ ان کا ایک ایک زخم وہاں پھول بن کر مہ کے گا۔ اور ان کا ایک ایک دکھ آرام و راحت کا ابدی پیغام ثابت ہوگا۔ اور مزید یہ فرمایا کہ ان کافروں نے جن کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا ہے اور سمجھتے ہیں کہ قیامت میں وہ ان کے کام آئیں گے، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ قیامت میں ہر حاضر ہونے والا شخص چاہے وہ کتنا عظیم کیوں نہ ہو، وہ نفسی نفسی پکار رہا ہوگا۔ کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ وہاں کسی نیکی کرنے والا کا اجر ادھورا نہیں رہے گا اور کسی برائی کرنے والے کی سزا ناتمام نہیں رہے گی۔ دنیا میں کتنے ایسے لوگ گزرے ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں بڑھ چڑھ کر قربانیاں دیں لیکن ان کی قربانیوں کا صلہ دنیا کیا دے سکتی ہے۔ قیامت میں ان کی ایک ایک قربانی رنگ لائے گی اور آدمی تمنا کرے گا کہ کاش اللہ تعالیٰ کے راستے میں میری کھال قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتی تاکہ آج میں اس کا بیش از بیش صلہ پاتا۔ اور ہر برا آدمی جس نے بڑی سے بڑی برائی کی سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کا قاتل بنا، ہزاروں گھر اجاڑے، ہزاروں عزتوں کے فانوس گل کیے، لیکن دنیا میں کوئی عدالت اس کا جرم ثابت نہ کرسکی، اور اگر جرم ثابت ہوا بھی تو ایک جان رکھنے والا ہزاروں جانوں کا قصاص کیسے بن سکتا تھا۔ قیامت کے دن جس طرح اچھے لوگوں کو بہترین صلہ ملے گا، اسی طرح برے لوگ بھی اپنی مکمل سزا بھگتیں گے۔ ہزاروں لوگوں کا قاتل ہزار دفعہ پھانسی پر لٹکایا جائے گا، ہر دفعہ اسے نئی جان ملے گی جو قصاص میں چھین لی جائے گی اور کسی شخص سے ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے آج اللہ تعالیٰ کے راستے میں چلنے والوں کے لیے ناامیدی کا کوئی موقع نہیں۔ اور مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والوں کو بھی ناروا جسارتیں بڑی مہنگی پڑیں گی۔
Top